طریقۂ تعلیم
3 طریقۂ تعلیم
m تعلیم دینے کے لیے جو طریقہ اختیار کیا جائے اسے’’ طریقہ تعلیم‘‘ کہتے ہیں۔
m صحیح طریقہ تعلیم کے ذریعے کم وقت میں بچوں کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔
طریقہ تعلیم میں اٹھارہ امور کی تفصیل ذکر کی جائے گی:
1 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت ’’ معلم‘‘۔
2 نبوی طریقہ تعلیم۔
3 معلم کی ذمے داریاں۔
4 اجتماعی تعلیم۔
5 انفرادی اسباق کو اجتماعی کرنے کاطریقہ۔
6 نصاب شروع کرنے کی ترتیب۔
7 تعلیمی ایام۔
8 قرآن کریم کے حقوق۔
9 نورانی قاعدہ سے متعلق اہم تعلیمی ہدایات۔
– بورڈ۔
q ناظرہ قرآن کریم اجتماعی پڑھانےکاطریقہ۔
w حفظ سورہ۔
e مضامین پڑھانے کا طریقہ۔
r کمزور طلبا پر محنت کی اہمیت اور اس کا طریقہ۔
t طلبا کے ساتھ برتائو۔
y علمِ نفسیات۔
u نرمی اور شفقت کے ساتھ بغیر مار کے پڑھانا۔
i درس گاہ میں نظم وضبط ۔
1 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت ” معلّم“
قرآن کریم اوراحادیث مبارکہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ’’معلم‘‘ ہونا ثابت ہے۔
(۱ء۱) قرآن کریم میں ہے:
هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ ۗ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍۙ (سورۃ الجمعہ:۲)
ترجمہ: ”وہی ہے جس نےاُمّی لوگوں میں انھی میں سے ایک رسول کو بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتوں کی تلاوت کریں اور ان کو پاکیزہ بنائیں اور انھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیں ۔ “
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
(۲ء۱) ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرہ سے باہر نکل کرمسجد میںتشریف لائے تو مسجد میں دو حلقے لگے ہوئے تھے۔ ایک حلقے والے قرآن کریم کی تلاوت کررہے تھے اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگ رہے تھے اور دوسرے حلقے والے سیکھنا سکھانا کررہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دیکھ کر ارشاد فرمایا:
’’دونوں حلقے خیر پر ہیں، یہ قرآن کریم کی تلاوت کررہے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگ رہے ہیں۔ اگر اللہ نے چاہا تو ان کوعطا کردے گا اور اگر چاہا تو ان کو نہیں دے گا اور یہ سیکھ رہے ہیں اور سکھا رہے ہیں اور مجھے معلم (سکھانے والا) بناکر بھیجا گیا ہے۔ ‘‘
یہ فرماکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔
( سنن ابن ماجہ، السنۃ،باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم۔ الرقم:۲۲۹ )
(۱ء۲ء۱)حضرت معاویہ بن حکم سُلَمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نما ز پڑھ رہا تھا ، ایک آدمی کو چھینک آئی، میں نے ’’یَرْحَمُكَ اللّٰہ ‘‘ کہا۔ لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کردیا۔
میں نے کہا:
تمہیں کیا ہوا مجھے کڑوی کڑوی نگاہوں سے گھورتے ہو۔ لوگ مجھے چپ کرانے لگے ، مجھے سمجھ میں تو کچھ آیا نہیں لیکن میں خاموش ہوگیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے فارغ ہونے کے بعدمجھے بلایا ۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’فَبِاَبِیْ وَ اُمِّیْ مَارَاَیْتُ قَبْلَہٗ وَلَا بَعْدَہٗ اَحْسَنَ تَعْلِیْمًا مِنْہُ فَوَاللّٰہِ مَاکَھَرَنِیْ وَلَا ضَرَبَنِیْ وَلَاشَتَمَنِیْ قَالَ: اِنَّ ھٰذِہِ الصَّلَاۃَ لَایَصْلَحُ فِیْھَا شَیْءٌ مِنْ کَلَامِ النَّاسِ، اِنَّمَا ھُوَ التَّسْبِیْحُ وَالتَّکْبِیْرُ وَقِرَاءَۃ ُ الۡقُرْاٰنِ۔‘‘
ترجمہ:’’میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں نے آپ سے بہتر’’ معلم‘‘ نہ آپ سے پہلے کسی کو دیکھا نہ آپ کے بعد۔ اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ مجھے ڈانٹا، نہ مارا اور نہ ہی برا بھلا کہا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’نماز میں لوگوں سے بات کرنا درست نہیں۔ نماز میں تو تسبیح، تکبیر اور قرآن کریم کی قرأت ہی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد، باب تحریم الکلام فی الصلوٰۃ۔ الرقم:۱۱۹۹)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ’’اُمِّی‘‘ ہونے کے باوجود سب سے بہترین معلم ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان تمام تر کمالات وصفات سے نوازا تھا جو ایک معلم میں ہونی چاہییں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے چند طریقے ذکر کیے جاتے ہیں تاکہ معلمین اور اساتذہ کرام کے سامنے پڑھانے اور سکھانے کا ایک رخ آجائے اور تعلیم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل کو اختیار کرنے سے پڑھائی معیاری اور بہترہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تعلیم ذکر کرنے سے پہلے مناسب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علم سے متعلق منقول دعا ئیں ذکر کردی جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دعاؤں کا بہت اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ ہر معلم کو چاہیے کہ ان دعاؤں کاخوب اہتمام کرے۔
(۳ء۱) معلّمین کے لیے چند دعائیں :
(۱ء۳ء۱) رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا ۔(طٰہٰ:۱۴۴)
ترجمہ:اے میرے رب !میرے علم میں اضافہ فرما۔
(۲ء۳ء۱) رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْۙوَیَسِّرْلِیْۤ اَمْرِیْۙوَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانیْۙ یَفْقَھُوْا قَوْلِیْ ۪ (طٰہٰ:۲۵تا۲۸)
ترجمہ:”پروردگار!میری خاطر میرا سینہ کھول د یجیے اور میرے لیے میرا کام آسان بنا دیجیے اور میری زبان میں جو گرہ ہے ،اُسے دور کردیجیے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں ۔“
(۳ء۳ء۱)
اَللّٰھُمَّ انْفَعْنِیْ بِمَاعَلَّمْتَنِیْ وَعَلِّمْنِیْ مَایَنْفَعُنِیْ وَزِدْنِیْ عِلْمًا ۔
(سنن ابن ماجۃ،الطھارۃ،باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ، الرقم :۲۵۲ )
ترجمہ:اے اللہ!جوعلم تونے مجھے سکھایاہے اس سے تومجھ کو نفع دے اوروہ علم عطافرما جومجھے نفع پہنچائے اورمیرے علم میں اضافہ فرما۔
(۴ء۳ء۱) حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے:
’’اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ عِلْمٍ لَّایَنْفَعُ، وَمِنْ قَلْبٍ لَّایَخْشَعُ، وَمِنْ نَّفْسٍ لَّا تَشْبَعُ، وَمِنْ دَعْوَۃٍ لَّایُسْتَجَابُ لَہَا۔‘‘
(صحیح مسلم، الذکر والدعاء باب فی الادعیۃ، الرقم: ۶۹۰۶)
ترجمہ:’’ اے اللہ! میں تجھ سے ایسے علم سے پناہ مانگتا ہوں جو نفع نہ دے، اور ایسے دل سے جو نہ ڈرے اور ایسے نفس سے جو کبھی نہ بھرے اور ایسی دعا سے جو قبول نہ ہو۔ ‘‘
2 نبوی طریقہ تعلیم
(۱ء۲) اپنے عمل کے ذریعے تعلیم دینا:
طریقہ تعلیم میں سب سے اہم اور بنیادی طریقہ عمل کے ذریعے تعلیم دینا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی کام کا حکم دیتے سب سے پہلے اس پر خود عمل کرتے پھرصحابہ رضی اللہ عنہم اس کام میں آپ کی پیروی کرتے اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین وہ عمل اسی طرح کرتے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے ہوئے دیکھتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق قرآن تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بندوں کے لیے ’’بہترین نمونہ‘‘ بنایا۔ اللہ تعالیٰ نےارشاد فرمایا:
’’لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا۔‘‘ (الاحزاب:۲۱)
ترجمہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے ، ہراس شخص کے لیے جواللہ سے اوریوم آخرت سے اُمیدرکھتاہو،اورکثرت سے اللہ کاذِکر کرتاہو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے لیے اخلاق، افعال اور زندگی کے ہر حال میں بہترین نمونہ ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”صَلُّوْ کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ۔“
(سنن الکبریٰ :۲/۳۴۵)
ترجمہ:” تم ایسے نماز پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔“
استاذ کو چاہیے کہ اپنے طلبا کے لیے عملی نمونہ بنیں۔
(۲ء۲) مثال سے بات سمجھانا:
(۱ء۲ء۲) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی:
’’میری والدہ نے حج کی منت مانی تھی لیکن حج کرنے سے پہلے ان کی وفات ہوگئی، کیا میں ان کی طرف سے حج کرلوں؟ ‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ہاں! والدہ کی طرف سے حج کرلو، تم بتائو اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا اور تم اسے ادا کرتی تو ادا ہوجاتا ؟ ‘‘
وہ عورت کہنےلگی: ’’ہاں ادا ہوجاتا۔ ‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ کا حق بھی ادا کرو، اللہ تعالی زیادہ حق دار ہیں اس بات کے کہ ان کا حق پورا پورا ادا کیا جائے۔‘‘ (صحیح البخاری، جزاء الصید، باب الحج و النذورعن المیت،الرقم: ۱۸۵۲)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں مثال کے ذریعے یہ بات سمجھائی کہ جس طرح والدہ کے ذمے قرض ہو اور بیٹی ادا کرے تو ادا ہوجائے گا، اسی طرح والدہ کے ذمے اللہ تعالیٰ کا حق ہو یعنی حج کرنا اور بیٹی والدہ کی طرف سے حج کرے تو حج ادا ہوجائے گا۔
(۲ء۲ء۲) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’نیک آدمی کے ساتھ بیٹھنے والے کی مثال مشک والے کے ساتھ بیٹھنے والے کی طرح ہے، اگر مشک نہ بھی ملے تو خوش بو آہی جائے گی اور برے آدمی کے ساتھ بیٹھنے والے کی مثال آگ کی بھٹی والے کے ساتھ بیٹھنےو الے کی طرح ہے اگر چنگاری کپڑے کو نہ بھی لگے تو دھواں تو کہیں گیا ہی نہیں۔‘‘
(سنن ابی دائود، الادب، باب من یومر ان یجالس، الرقم: ۴۸۲۹)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں خیر کے کام کرنے کی خوب ترغیب دی ہے اور برائی سے دور رہنے کی ہدایات دی ہیں اور اس کو مثال کے ذریعے سمجھایا ہے۔ اچھوں کے ساتھ رہنے سےاچھائی زندگی میں آتی ہے اور بروں کے ساتھ رہنے سے برائی زندگی میں آتی ہے۔ اس لیے نیک لوگ اور علماء کی صحبت میں بیٹھا جائے کہ یہ دنیا وآخرت دونوںمیں نفع دیتی ہے اور فاسق اور بد کردار لوگوں کی صحبت سے دور رہا جائے کہ یہ زہر قاتل ہے۔
(۳ء۲) لکیر کھینچ کر نقشے کے ذریعے بات سمجھانا:
کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بات سمجھانے کے لیے زمین اور مٹی پر لکیر کھینچ کر وضاحت فرمایا کرتے تھے۔
(۱ء۳ء۲) حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اپنے سامنے ایک لکیر کھینچی اور ارشاد فرمایا:” یہ اللہ عزوجل کا راستہ ہے۔ “
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو لکیریں اپنے دائیں طرف اور دو لکیریں اپنے بائیں طرف کھینچیں اور ارشاد فرمایا: ”یہ شیطان کے راستے ہیں۔ “
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ درمیان والی لکیر پر رکھ کر یہ آیت تلاوت فرمائی:
’’وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ ج وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ط ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔‘‘ (الانعام: ۱۵۳)
ترجمہ:’’ اور (اے پیغمبر! اِن سے) یہ بھی کہو کہ!’’ یہ میرا سیدھا سیدھا راستہ ہے لہٰذا اس کے پیچھے چلو، اور دوسرے راستوں کے پیچھے نہ پڑو، ورنہ وہ تمہیں اللہ کے راستے سے الگ کردیں گے، لوگو! یہ باتیں ہیں جن کی اللہ نے تاکید کی ہے تاکہ تم متقی بنو۔‘‘
(مسند الامام احمد، عن جابر وابن مسعود)
(۲ء۳ء۲)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر چار لکیریں کھینچ کر ارشاد فرمایا:
کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے یہ چار لکیریں کیوں کھینچی ہیں؟
صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: ’’اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جنتی عورتوں میں سب سے افضل عورتیں
1خدیجۃ بنت خویلد 2 فاطمہ بنت محمد
3مریم بنت عمران 4 آسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی) ہیں۔
(مسند الامام احمد، عن عبد اللہ بن عباس)
(۴ء۲) زبانی بتانے کے ساتھ ہاتھ کے اشارے سے وضاحت کرنا:
کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بات سمجھانے کے لیے زبانی بتانے کے ساتھ اپنے ہاتھ مبارک سے اشارہ بھی کرتے تھے تاکہ بات واضح ہوجائے اور سننے والوں کو اس کی اہمیت معلوم ہوجائے۔
(۱ء۴ء۲) حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’مومن مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے اس کا ہر ایک حصہ باقی حصوں کو مضبوط کرتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ کی انگلیاںدوسرے ہاتھ کی انگلیوںمیں ڈالیں۔‘‘ (صحیح البخاری، الادب، باب تعاون المومنین بعضہم بعضا، الرقم: ۶۰۲۶)
یعنی اس عمل سے یہ سمجھایاکہ مسلمانوں کواس طرح آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہناچاہیے اورایک دوسرے کی قوت کاذریعہ ہوناچاہیے۔۔
(۲ء۴ء۲) حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت کی انگلی اوردرمیان والی انگلی سے اشارہ کیا اور دونوں کے درمیان کچھ فاصلہ رکھا۔ ‘‘ (صحیح البخاری، الطلاق، باب اللعان، الرقم: ۵۳۰۴)
(۵ء۲) دکھاکر سکھانا:
کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ مبارک میں ایک چیز لے کر آتے اور حاضرین کو وہ چیز دکھاکر اس کا حکم بتاتے تھے۔ اس سے بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے اور سمجھ میں آجاتی ہے۔
(۱ء۵ء۲) حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سیدھے ہاتھ میں ریشم اور الٹے ہاتھ میں سونا لیااور پھر ارشاد فرمایا:
’’یہ دونوں میری امت کے مَردوں پر حرام ہیں( اور عورتوں کے لیے حلال ہیں)۔ ‘‘
(سنن ابی دائود،اللباس، باب فی الحریر للنساء، الرقم: ۴۰۵۷)
(۶ء۲) سوال کا جواب شاگردوں سے پوچھنا:
کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوال کا جواب خود دینے کے بجائے کسی صحابی سے فرماتے کہ اس سوال کا جواب دو تاکہ ان کو علمی باتوں کا جواب دینا آجائے۔
(۱ء۶ء۲) حضرت عبد اللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
دو آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں فیصلہ کرانے کے لیے حاضر ہوئے ،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے ارشاد فرمایا:
’’ان کا فیصلہ کرو۔ ‘‘
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہنے لگے:
’’اللہ کے رسول! آپ کی موجودگی میں کیسے فیصلہ کرسکتا ہوں؟ ‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ہاں! میری موجودگی میں تم فیصلہ کرو۔‘‘ (مسند الامام احمد: ۲: ۱۸۵)
(۲ء۶ء۲) ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہما کو ایک فیصلہ کے لیے بھیجا۔ جب وہ واپس آئے تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ میں نے اس طرح اس طرح فیصلہ کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اَصَبْتَ وَاَحْسَنْتَ۔‘‘
ترجمہ:’’تو نے ٹھیک کیا اوراچھا فیصلہ کیا۔ ‘‘
(سنن ابن ماجہ، الاحکام، باب الرجلان یدعیان فی خص، الرقم:۲۳۴۳)
(۷ء۲) طلبا سے سوالات کرنا اور صحیح جواب پر ان کی حوصلہ افزائی کرنا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے سوالات فرماتے ، ان کی ذہانت بڑھانے کے لیے ، جب کوئی صحیح جواب دیتا تو اس کی تعریف فرماتے اور حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔
(۱ء۷ء۲) حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ( ان کی کنیت ابوا لمنذر ہے) فرماتے ہیں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اے ابو المنذر! تیرے نزدیک قرآن کریم کی کون سی آیت سب سے بڑی ہے؟ ‘‘
حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: ’’اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ ‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اے ابو المنذر! کیا تو جانتا ہے قرآن کریم کی کون سی آیت سب سے بڑی ہے۔ ‘‘
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے عرض کیا:
’’(آیۃ الکرسی) اَللّٰہُ لَاۤ ا ِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ۔ ‘‘
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شفقت سے میرے سینے پر ہاتھ مارا اورفرمایا:
’’لِیَھْنِكَ الْعِلْمُ اَبَا الْمُنْذِرِ۔‘‘
’’ اے ابو المنذر! تیرا علم تجھے مبارک ہو۔‘‘
( صحیح مسلم، فضائل القرآن، باب فضل سورۃ الکہف و اٰیۃ الکرسی، الرقم: ۱۸۸۵)
(۲ء۷ء۲) حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے یمن کا حاکم بناکر بھیجنے لگے تو مجھ سے ارشاد فرمایا:
’’فیصلہ کرنے کے وقت فیصلہ کیسے کروگے؟ ‘‘
میں نے کہا: ’’قرآن کریم سے فیصلہ کروں گا۔ ‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر قرآن کریم میں نہ ملے تو؟ ‘‘
میں نے کہا: ’’اللہ کےرسول کی حدیث مبارک سے فیصلہ کروں گا۔ ‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگرقرآن اور حدیث دونوں میں نہ ملے تو؟ ‘‘
میں نے کہا: ’’اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور کوتاہی نہیں کروںگا۔ ‘‘
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینے پر ہاتھ مارا اور ارشاد فرمایا:
’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَفَّقَ رَسُوْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ لِمَا یُرْضِیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ۔‘‘ (سنن ابی دائود، القضاء، باب اجتھاد الرأی فی القضاء، الرقم: ۳۵۹۲)
ترجمہ:’’ تمام تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے اللہ کے رسول کے قاصد کو اس بات کی توفیق دی جو اللہ کے رسول کو پسند ہے۔ ‘‘
(۳ء۷ء۲) احادیث کی کتابوںمیں مستقل عنوان ہے کتاب المناقب جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ مبارک احادیث ذکرکی گئیں ہیں جوصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حوصلہ افزائیوں پرمشتمل ہیں یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو انعامات دیے گئے۔مثلا:
1آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو حواری کے لقب کا انعام دیااور ارشاد فرمایا:
”اِنَّ لِکُلِّ نَبِیٍّ حَوَارِیًّا وَاِنَّ حَوَارِیِّ الزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَامِ ۔“
(صحیح البخاری ،فضائل اصحاب النبی،باب مناقب الزبیر بن العوام،الرقم:۳۷۱۹)
ترجمہ: ہرنبی کاایک مددگار ، خیرخواہ ہوتاہے اورمیرامددگار، خیرخواہ زبیربن العوام ہے۔
2 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو امین ہونے کا لقب عطا فرمایا:
اِنَّ لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَمِیْنًاوَاِنَّ اَمِیْنَنَا اَیَّتُھَاالْاُمَّۃُ اَبُوْعُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ ۔ (صحیح البخاری،فضائل اصحاب النبی،باب مناقب الی عبیدۃ بن الجراح،الرقم:۳۷۴۴)
ترجمہ:ہرامت کاایک امین ہے میری امت کے امین ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ ہیں۔
3 صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی اسی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ فرماتے تھے :
’’اَبُوْبَکْرٍ سَیِّدُنَا،وَاَعْتَقَ سَیِّدَنَا یَعْنِیْ بِلَالًا۔‘‘
(فضائل اصحاب النبی،باب مناقب بلال،الرقم:۳۷۵۴)
ترجمہ:حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہمارے سردار ہیں اورانہوںنے ہمارے سردار یعنی حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو (خریدکر)آزادکیا۔
جس صحابی میں جو خاص صفت ہوتی اس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اجاگر فرماتے ، اس سے اس کی حوصلہ افزائی ہوتی۔
اللہ تعالیٰ نےبھی انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام میں سے بعضوں کے متعلق فرمایا:
’’نِعْمَ الْعَبْدُ۔‘‘
بحیثیت معلم اساتذہ کرام کو بھی چاہیے کہ مَاشَآءَ اللّٰہُ،جَزَاكَ اللّٰہُ خَیْرََا ،بَارَكَ اللّٰہُ کہہ کر طلبا کی خوب حوصلہ افزائی کریں اس سے بہت ہمت بڑھتی ہے اوراس سے اپنائیت ظاہر ہوتی ہے جواستاذ اور شاگرد کے درمیان ہوناانتہائی اہم ہے ۔
(۸ء۲) ایک بات کو تین مرتبہ دہرانا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کسی بات کی اہمیت بتانے کے لیے ایک بات تین مرتبہ دہراتے تاکہ سننے والا اچھی طرح سمجھ جائے اوراس بات کی اہمیت معلوم ہوجائے۔
(۱ء۸ء۲) حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بات فرماتے تو ایک بات تین مرتبہ دہراتے تاکہ خوب سمجھ میں آجائے۔ (صحیح البخاری، العلم، باب من اعاد الحدیث ثلاثا لیفہم عنہ، الرقم: ۹۶)
(۲ء۸ء۲) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
’’ہم لوگ ایک سفرمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے پیچھے رہ گئے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے آکرملے توعصرکی نماز کاوقت ختم ہونے والاتھا،ہم جلدی جلدی وضوکرنے لگے اوراپنے پائوں پرمسح کرنے لگے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلندآواز سے دومرتبہ یاتین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا:
’’وَیْلٌ لِلْاَعْقَابِ مِنَ النَّارِ‘‘
ترجمہ: ’’وضو میں ایڑھیاں اچھی طرح دھونے میں کوتاہی کرنے والوں کے لیے آگ سے ہلاکت ہو۔ (صحیح البخاری، العلم، باب من اعاد الحدیث ثلاثا لیفہم عنہ، الرقم: ۹۶)
(۹ء۲) دوران تعلیمدل لگی کرنا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے کبھی کبھی دل لگی کرتے تھے لیکن زبان سے حق ہی کہتے اوراس میں کسی کی دل آزاری نہیں کرتے تھے اوردل لگی ہی کے دوران بہت سی علمی باتیں سکھادیتے تھے۔
(۱ء۹ء۲) حضرت انَس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کے لیے اونٹ مانگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا’’میںتجھے اونٹنی کابچہ دوںگا۔‘‘
اس آدمی نے عرض کیا:”اللہ کے رسول !اونٹنی کابچہ سواری کے کیاکام آئے گا؟“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اونٹ اونٹنی ہی کابچہ ہوتاہے۔ “ (سنن ابی داود،الادب،باب ماجاء فی المزاح، الرقم: ۴۹۹۸)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دل لگی میں یہ بات سمجھادی کہ اونٹ چاہے کتناہی بڑاہوجائے اوربہت وزن اوربوجھ اٹھائے لیکن وہ اونٹنی کابچہ ہی ہوتا ہے ۔
(۱۰ء۲) ایک بات کواجمالاً بیان کرنا پھراس کی تفصیل بیان کرنا:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی کسی بات کواجمالاً بیان فرماتے تاکہ سننے والے سوال کریں اوراس کی وضاحت کاشوق پیدا ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی وضاحت فرماتے تاکہ سمجھ میں بھی آجائے اوریاد بھی رہے۔
(۱ء۱۰ء۲) حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ایک جنازہ قریب سے گزرااس کی تعریف کی گئی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کرارشادفرمایا:
’’وَجَبَتْ،وَجَبَتْ،وَجَبَتْ۔‘
ترجمہ:’’واجب ہوگئی، واجب ہوگئی،واجب ہوگئی۔‘‘
پھردوسراجنازہ قریب سے گزرا،اس کی برائی کی گئی ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
’’وَجَبَتْ،وَجَبَتْ،وَجَبَتْ۔‘
ترجمہ: ’’واجب ہوگئی، واجب ہوگئی،واجب ہوگئی۔‘‘
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
میرے ماں باپ آپ پرقربان ہوں! ایک جنازہ گزرا لوگوں نے اس کی تعریف کی توآپ نے فرمایا: واجب ہوگئی، واجب ہوگئی،واجب ہوگئی،ایک اورجنازہ قریب سے گزرا لوگوں نے اس کی برائی کی توآپ نے فرمایا!واجب ہوگئی واجب ہوگئی واجب ہوگئی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس کی تم نے تعریف کی اس کے لیے جنت واجب ہوگئی اورجس کی تم نے برائی کی اس کے لیے دوزخ واجب ہوگئی،تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو،تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو،تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو۔ (صحیح مسلم ،الجنائز، باب فیمن یثنی علیہ خیرا او شرا من الموتی، الرقم: ۲۲۰۰)
اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں جنازوں کے بارے میں ارشادفرمایا:
’’وَجَبَتْ۔‘‘ پھرہرایک کی وضاحت اورتفصیل بیان فرمائی۔
اسی کے قریب قریب یہ بھی ہے کہ متعین تعداد بیان کرناپھر ایک کے بعد ایک ایک کرکے نمبروار ہرایک کی تفصیل بیان کرنا،تاکہ سننے والے سمجھ لیںاورمحفوظ کرلیں۔
(۲ء۱۰ء۲) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
پانچ چیزوں کوپانچ چیزوںسے پہلے غنیمت جانو :
۱…جوانی کوبڑھاپے سے پہلے۔
۲…تندرستی کو بیماری سے پہلے۔
۳…مال داری کوفقرسے پہلے۔
۴…فراغت کو مصروفیت سے پہلے۔
۵…زندگی کو موت سے پہلے۔ (المستدرک للحاکم عن ابن عباس)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث شریف میںپانچ چیزوں کی اہمیت اوراس کاانتہائی فائدہ مندہونا ارشاد فرمایااوریہ بھی کہ یہ پانچوں نعمتیں ایسی ہیںکہ ان کی قدر اس وقت معلوم ہوتی ہے جب یہ ہاتھ سے نکل جاتی ہیں۔
3معلم کی ذمے داریاں
1 اگر معلم نے صحیح تجوید کے ساتھ طلبا کو نورانی قاعدہ پڑھایا تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن کریم صحیح پڑھ سکیں، اور ان کو دعائیں یاد کرانے اور اخلاق وآداب سکھانے میں خوب محنت کی تو یہ طلبا آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہوں گے۔ آپ کے دنیا سے جانے کے بعد بھی ان کی تمام نیکیوں کا ثواب آپ کو ملتا رہے گا اور جو چیزیں بچوں کے خالی ذہن ودماغ پر بچپن میں نقش کردی جاتی ہیں وہ اخیرعمر تک باقی رہتی ہیں اس لیے معلم ہونا بہت مبارک ہے۔
m خود ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا‘‘
(سنن ابن ماجہ،السنۃ، باب فضل العلماء۔۔۔ الرقم: ۲۲۹)
ترجمہ :’’ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘
m استاذ نے اگر اس کا صحیح حق ادا کردیا یعنی وقت پر پہنچا، مطالعہ کرکے خوب دل سے پڑھایا تو اس کا اجر بھی بہت زیادہ ہے اور اگر خیانت کی یعنی درس گاہ میں دیر سے پہنچا، موبائل فون پر مصروف رہا وغیرہ تو پکڑ بھی سخت ہے۔
2 معلم کے لیے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ اس کے دل میں طالب علم کے لیے خیر خواہی کا جذبہ ہو۔
3 معلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو علم ملاہے وہ ایک امانت ہے اس کو پہنچانے کی فکر کرتا رہے اور اس کی ادائیگی میںکوتاہی سے اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے۔
4 استاذ کو اس بات کا استحضار ہر وقت رہے کہ بچہ اور اس کا وقت امانت ہے اس میں کسی قسم کی خیانت نہ ہو۔
5 معلم کے اندر صبر ،استقامت ، تقویٰ،توکل،یقین کی صفت ہو اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوب دعا مانگنے والا ہو۔ کیوں کہ نظام تعلیم میں استاذ کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ کوئی بھی نظام تعلیم اچھے اساتذہ کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اساتذہ ہی تعلیم کے معیارکو بلند کرنے اورپست کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ استاذ کو ہر دور میں بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔
6 مدرس اپنے کام کو ذریعہ معاش کے بجائےدینی وعلمی خدمت تصور کرے۔
7 مدرس کو خوش مزاج ہونا چاہیے اور دورانِ تدریس مناسب موقعوں پر خوش مزاجی کا مظاہرہ کرنا چاہیے، کیوں کہ عام طور پر خوش مزاجی تدریس کے لیے بڑی مؤثر ہوتی ہے اورنامناسب الفاظ سے اجتناب کرے،منہ اٹھاکرآگئےہو،تھپڑ ماردوںگا،پڑھنا ہے پڑھو ورنہ جائو، میں تمہارا نوکرنہیں ہوں وغیرہ ۔
8 ناظم کے ماتحت رہ کر کام کریں، ان کی بات مانیں، انتظامی اور تدریسی امور میں متعلقہ حضرات کی ہر ممکنہ مدد کریں اور مقررہ وقت پر نصاب ختم کرنے کی کوشش کریں۔
9 استاذاس بات کی کوشش کریں کہ اپنا اصلاحی تعلق کسی شیخ کامل سے قائم کرلے۔
– استاذ خود پاکی و صفائی کا اہتمام کریں تاکہ بچوں کے لیے عملی دعوت ہو۔
q استاذ سونے سے پہلے روزانہ کچھ دیر اپنے نفس کا محاسبہ کریں کہ میں نے اپنی ذمے دار پوری کردی ہے یا اس کی ادائیگی میںکوتاہی ہوئی ہے۔اگر ذمے داری پوری ہوگئی ہو تو اللہ کا شکر ادا کریں تاکہ ترقی ہو اور اگر کوتاہی ہوئی ہے تو استغفار کریں اور آئندہ ذمے داری پوری کرنے کا عزم کریں۔
w معلم اپنی ذمے داریوں کو اچھی طرح نبھائیں ، اوقات کی پوری پابندی کریں۔
e پڑھائی کے علاوہ اوقات میں ان کتابوں کا مطالعہ کریں:
1 حیاۃ الصحابۃ 2 صحابہ کے واقعات 3 تابعین کے واقعات
4 اصلاحی خطبات(مفتی تقی عثمانی صاحب) 5 مثالی استاذ وغیرہ
6 تاریخ دعوت وعزیمت 7 مولانا الیاس صاحب رحمہ اللہ اور ان کی دینی دعوت
8 آپ بیتی (حضرت اقدس شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ)
4 اجتماعی تعلیم
’’اجتماعی تعلیم بہت ضروری ہے ۔اس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہر بچے کا ایک ایک منٹ سیکھنے میں صرف ہوگا ۔اگر ایک گھنٹے میں ۲۰ طلبا انفرادی پڑھتے ہیں تو ہر بچے کو استاذ کے سامنے صرف ۳منٹ ملیں گے اور اجتماعی تعلیم میں ہر بچے کو ۶۰ منٹ پورے ملیں گے۔ یعنی ۲۰ گنا زیادہ فائدہ ہوگا۔ ‘‘
(۱ء۴) اجتماعی تعلیم کے فوائد :
m ہرمدرسے، اسکول اورکالج میں اجتماعی تعلیم ہوتی ہےاس لیے مکتب میں بھی اجتماعی تعلیم ہونی چاہیے۔
m تھوڑی محنت اورکم وقت میں زیادہ بچوں کو بہت ساری باتیں آسانی سے پڑھاسکتے ہیں۔
m تعلیمی ماہرین کہتے ہیں اگر ایک کلاس میں بیس طلبا ہیں اور ہر ایک کا سبق انفرادی ہو تو وہ بیس کلاسیں ہیں۔
m استاذ بچوں پر یکساں توجہ دے سکتا ہے جس کی وجہ سے بچوں کو شرارت کرنے کا موقع نہیں ملتا اور درس گاہ میں نظم وضبط رہتا ہے۔
m کم توجہ دینے والےطلبا یا جو بچوں کو سبق جلد یاد نہیں ہوتا وہ بھی غیر محسوس طریقے سے سبق یاد کرلیتے ہیں۔
m طالب علم کا مکمل وقت استعمال ہوتا ہے اور ایک ایک منٹ سیکھنے میں استعمال ہوتا ہے۔
m بچوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
m بچوںمیں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اس سے بچوں کی جھجھک دور ہوتی ہے ۔
m بچوں کو تعلیمی ماحول ملتا ہے اور سبق درس گاہ میں یاد ہوجاتا ہے۔
m اجتماعی تعلیم میں وقت کی بچت ہونے کی وجہ سے نورانی قاعدہ اور قرآن کریم کے ساتھ ساتھ دین کی ضروری اور بنیادی باتیں بچوں کو پڑھائی جا سکتی ہیں۔
(۲ء۴) اجتماعی تعلیم کےلیے مندرجہ ذیل امور اختیار فرمائیں:
m اجتماعی تعلیم کے لیے داخلہ ایک ساتھ ہونا ضروری ہے ۔
m ابتدا ء ً طلبا کا سال میں دو مرتبہ داخلہ لیں تاکہ اجتماعی تعلیم قابو میں آسکے ۔
m مکتب میں موجود طلبا کی عمر کے اعتبار سے الگ الگ جماعتیں بنائیں اور ایک جماعت میں بیس طلبا رکھیں اور ایک وقت (سوا گھنٹے/ ڈیڑھ گھنٹہ) میں ایک ہی جماعت کو اجتماعی طور پر پڑھائیں۔
m ہر طالب علم کے پاس اپنی کتاب ہو تاکہ پڑھنے ، سمجھنے اور یا د کرنے میں آسانی ہو ۔
m بورڈ پر پڑھانے سے اجتماعی تعلیم میں سہولت ہوتی ہے اور تعلیمی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
( دیکھیے صفحہ نمبر ۳۵)
5 انفرادی اسباق کواجتماعی کرنے کاطریقہ
(۱ء۵) نورانی قاعدہ ، ناظرہ قرآن کریم اور حفظ کے طلبا کی الگ الگ جماعت بنائیں:
m مکتب میں دوتین یااس سے زائد استاذہوںتوسب سے پہلے نورانی قاعدہ/ناظرہ قرآن کریم اورحفظ کے طلبا کی الگ جماعتیں بنالیں۔اورنورانی قاعدہ،ناظرہ قرآن کریم اورحفظ کے طلبا کے لیے الگ الگ استادمتعین کرلیں۔
m مکتب میں ایک استاذہو اورنورانی قاعدہ/ناظرہ قرآن کریم کے طلباہوں تونورانی قاعدہ کے طلباکی الگ جماعت اورناظرہ قرآن کریم کے طلبا کی الگ الگ جماعت بنائیں۔ مثلاً پڑھائی کے اوقات دوپہر 2:00تا00:5ہوںتو 2:00 تا 3:15 نورانی قاعدہ کے طلباکوپڑھائیں 3:30تا 5:00ناظرہ قرآن کریم کے طلبا کو پڑھائیں۔
(۲ء۵) نورانی قاعدہ کاسبق ایک کرنے اورپڑھانے کی ترتیب :
m تمام طلبا کاسبق ایک جگہ پرہوتوبہتر ہے تاکہ اجتماعیت رہے ،اگر ایسانہ ہوتو ایک کرنے کی کوشش کریں۔جس کاطریقہ یہ ہے:
m نورانی قاعدہ پڑھنے والے طلبا کے نام اورمقدارِ خواندگی ایک صفحہ پرلکھ لیں۔
m جن طلبا کاسبق ایک ہی تختی میں ہو مثلا دوطالب علم تختی نمبر۲ میںہیں تو ان کاسبق ایک کردیںاوران کی ایک جوڑی بنادیں۔اس طرح کلاس میں بیس طلبا ہوں تودس جوڑیاں بن جائیںگی۔
m اس کے بعدایک جوڑی کودوسری جوڑی کے ساتھ ملانے کی کوشش کریں مثلاً تختی نمبر۲ میں ایک جوڑی ہے دوسری جوڑی تختی نمبر۳ میں ہے تو ان دونوں جوڑیوں کوملانے کے لیے تختی نمبر۲ والے طلباپرخوب محنت کریں۔ان کو زیادہ وقت دیں تختی نمبر۳ والوں کے ذمے لگائیں کہ ان کاسبق پکاکرائیں۔
m اس طرح جوڑیوں کوآپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے رہیں یہاںتک کہ ایک جماعت میں دوجوڑیاں رہ جائیںایک جوڑی میں مثلاً دس طلباتختی نمبر۷ میں جمع ہوجائیں اوردوسری جوڑی میں دس طلبا تختی نمبر۱۱ میں جمع ہوجائیں۔
m جب تک نورانی قاعدہ میں دو گروپ نہ بن جائیں ا س وقت تک تربیتی نصاب شروع نہ کرائیں۔
m افتتاحی اجتماع(حمد/نعت) پانچ منٹ میں پڑھانے کے بعدآدھا گھنٹہ تختی نمبر۷ والوں کو پڑھائیں اور تختی نمبر۱۱ کے طلبا کاایک نگران مقررکریں جوان کو گزشتہ کل پڑھاہواسبق پکا کراتا رہے اور استاذ خود نگرانی کرتے رہیں۔
m آدھا گھنٹہ کے بعد تختی نمبر ۱۱ والوں کو پڑھائیں اورتختی نمبر۷ کے طلباکاایک نگران مقررکریں جوان کو آج کاسبق ذہن نشین کراتارہے۔
m دونوں جوڑیوں کو آدھا آدھا گھنٹہ نورانی قاعدہ پڑھانے کے بعدتربیتی نصاب کے مضامین دونوں جوڑیوں کواجتماعی پڑھائیں۔
(۳ء۵) دو جماعتوں کو نورانی قاعدہ پڑھانے کی ترتیب:
m اگرایک وقت میں نورانی قاعدہ کی مکمل دوجماعتیں ہوںتوان کی اس طرح جماعت بندی کریںکہ ایک جماعت میں تختی نمبر۱ سے تختی نمبر۸ تک کے طلباہوں اوردوسری جماعت میں تختی نمبر۹ سے تختی نمبر۱۶ تک کے طلباہوں اوران کو علیحدہ علیحدہ اوقات میں پڑھائیں۔مثلاً ایک جماعت کو 2:00بجے سے 3:15بجے تک اوردوسری جماعت کو 3:15سے 4:30بجے تک پڑھائیں۔
m اگران دونوں جماعت کے طلباایک ہی وقت میں پڑھناچاہیں مثلا`3:15تا 4:30بجے تودوسرے استاذکاانتظام کریں۔
m اگردوسرے استاذ کابھی فوری انتظام نہ ہوسکے اوردونوں جماعتوں کے اوقات بھی علیحدہ علیحدہ نہ ہوسکیں تومجبوری میں آدھا گھنٹہ بڑھوادیں اور یہ طریقہ کاراختیار کریں:
پانچ منٹ حمد/نعت کے بعد آدھا گھنٹہ ایک جماعت کو قاعدہ پڑھائیں اوردوسری جماعت کے طلبا کاایک نگران مقررکردیں جواپنے ساتھیوں کوگزشتہ کل کا قاعدہ سبق پکاکراتارہے اور استاذ خود نگرانی کرتے رہیں۔
m پھرآدھا گھنٹہ دوسری جماعت کو قاعدہ پڑھائیں اورپہلی جماعت کے طلبا کاایک نگران مقررکردیں جوان کو آج کا سبق پکاکراتارہے۔
اس کے بعددونوںجماعتوں کوتربیتی نصاب کے مضامین اجتماعی پڑھائیں۔
وضاحت :نورانی قاعدہ سے متعلق اہم تعلیمی ہدایات کے مطابق ’’نورانی قاعدہ‘‘ پڑھائیں یہ ہدایات صفحہ نمبر۱۳۱میں ہیں۔
(۴ء۵) قرآن کریم کا سبق ایک کرنے اور پڑھانے کی ترتیب:
m اگر طلبا کا قرآن کریم تجوید کے اعتبار سے کمزور ہے تو سبق نہ روکا جائے بل کہ سبق کے ساتھ ساتھ تجوید کی محنت جاری رکھی جائے ۔ اگر کمزوری رواں میں ہے تو قرآن کریم کا سبق ہجے کرکے پڑھایا جائے کم از کم ایک پارہ ہجے کروایا جائے۔
m قرآن کریم پڑھنے والے طلباء کاقرآن کریم اگرصحیح ہوتو قرآن کریم کے ساتھ تربیتی نصاب حصہ اول کے مضامین پڑھائیں۔
m قرآن کریم میں طلبا کاسبق آگے پیچھے ہوتوسب کاسبق ایک کردیں۔اس کی صورت یہ ہے کہ سب کوپارہ الٓـمّٓ شروع کرادیں۔
m اگرطلبا الٓـمّٓ پڑھ چکے ہوں توسب طلبا کے نام اورمقدارخواندگی ایک صفحہ پرلکھیں۔
m جن طلبا کے پارے قریب قریب ہیں ان کی جوڑیاں بنادیں اوران کو کسی ایک پارے میں جمع کرلیں،مثلاً آٹھ بچے ’’وَالْمُحْصَنٰتْ‘‘ میں اور بارہ بچے ’’قَالَ اَلَمْ‘‘ میںیعنی ایک گروپ کو پہلے پندرہ میں سے کسی ایک پارے میں اور دوسرے گروپ کو آخر کے پندرہ پاروں میں سے کسی ایک میں جمع کردیں ۔
m جوڑیاں بنانے کے لیے کسی طالب علم کو آگے کرناپڑے توکردیں اس لیے کہ اس سے اگلے پارے میں وہی انتیس(۲۹) حروف ہیں اوروہی قواعد تجوید ہیں حرکات، کھڑی حرکات، تنوین، جزم، حروف مدہ، حروف لین تشدید وغیرہ۔
اب ان کو تربیتی نصاب پڑھاناشروع کریںاور طلبا کا وقت چالیس منٹ بڑھادیں۔
m پانچ منٹ میں حمد/نعت کے بعد چالیس منٹ میں ایک گروپ کو پڑھائیں اور دوسرے گروپ کا ایک نگران مقرر کرلیں جو ان کو گزشتہ پڑھے ہوئے سبق کی دہرائی کراتا رہے اس کے بعد دوسرے گروپ کو چالیس منٹ پڑھائیں اور پہلے گروپ کا ایک نگران مقرر کردیں جو اپنے ساتھیوں کا باری باری سبق سنے اور غلطیوں کی اصلاح کرتا رہے ۔
m اگر جگہ تنگ ہو یا کسی بھی وجہ سے دونوںگروپ کے طلبا کو علیحدہ علیحدہ نہ بٹھا یا جاسکتا ہو تو دونوں گروپ کے طلبا کو ایک ساتھ بٹھائیں جب ایک گروپ کے طلبا کو ’’وَالْمُحْصَنٰتْ‘‘ پڑھائیں تو سب طلبا پارہ ’’وَالْمُحْصَنٰتْ‘‘ ہی کھولیں ، اس کے بعد جب دوسرے گروپ کے طلبا کو ’’قَالَ اَلَمْ‘‘ پڑھائیں تو سب طلبا پارہ ’’قَالَ اَلَمْ‘‘ ہی کھولیں ۔
m اس کافائدہ یہ ہوگا کہ جوطلبا پڑھ چکے ہیں ان کی دہرائی اورپکّا ہوتارہے گااورجنہوںنے نہیں پڑھاان میں استعداد پیداہوگی۔
(۵ء۵) دو جماعتوں کو ناظرہ قرآن کریم پڑھانے کی ترتیب:
m اگرایک وقت میں ناظرہ قرآن کریم کی مکمل دوجماعتیں ہوں تو کوشش کریں کہ ان کو علیحدہ علیحدہ اوقات میں پڑھائیں مثلاایک جماعت 2:00سے 3:30تک او ردوسری جماعت کو 3:30سے 5:00 بجے تک پڑھائیں۔
m اگر ان دونوں جماعت کے طلبا ایک ہی وقت میں پڑھناچاہیں مثلاً 3:30تا 5:00 بجے تو دوسرے استاذ کا انتظام کریں۔
m اگردوسرے استاذ کابھی فوری انتظام نہ ہو سکے اور دونوں جماعتوں کے اوقات بھی علیحدہ علیحدہ نہ ہوسکیں تومجبوری میںچالیس منٹ وقت بڑھاکر یہ طریقہ اختیار کرلیں۔
m پانچ منٹ حمد/نعت کے بعد چالیس منٹ ایک جماعت کو پڑھائیںاوردوسری جماعت کے طلبا کاایک نگران مقررکردیں جواپنے ساتھیوں کوگزشتہ کل کاسبق پکاکراتارہے اوراستاذ خودنگرانی کرتے رہیں۔
m پھر چالیس منٹ دوسری جماعت کو پڑھائیں اورپہلی جماعت کے طلبا کاایک نگران مقررکردیں جوان کوآج کاسبق پکاکراتارہے۔
m اس کے بعد دونوں جماعتوں کوتربیتی نصاب کے مضامین اجتماعی پڑھائیں۔
اگر کلاسیں ہال کے اندر ہوں تو کوشش کریں کہ الگ الگ جگہوں پر یا فاصلہ زیادہ کرکے کلاسیں لگائیں۔ اگر ایسا نہ ہو سکے تو درمیان میں پردہ یا لکڑی کا بورڈ یا شیشے سے آڑ لگادی جائے تاکہ طلبا کی پڑھائی میں خلل نہ ہو اور پرسکون ماحول میں طلبا پڑھ سکیں۔
وضاحت: ’’ناظرہ قرآن کریم اجتماعی پڑھانے کاطریقہ‘‘صفحہ نمبر۱۳۶ۜمیں ہے اس طریقے کے مطابق پڑھائیں۔
6 نصاب شروع کرنے کی ترتیب
m تربیتی نصاب کو نظام کے ساتھ مرتب کیا گیا ہے اس لیے’’طریقہ تعلیم ‘‘کا جاننا اور سمجھنا بہت ضروری ہے۔
m تربیتی نصاب حصہ اول پڑھانے کے لیے روزانہ سوا گھنٹے کا جب کہ حصہ دوم، حصہ سوم اور حصہ چہارم کے لیے ڈیڑھ گھنٹہ وقت مقررکیا گیا ہے۔
m سال کے شروع میں دو چار دن طلبا کی جماعت بندی کریں۔ طلبا کو ان کی عمر اور مقدار خواندگی کے اعتبار سے الگ الگ جماعتوں میںتقسیم کردیں۔
m ایک جماعت میں زیادہ سے زیادہ بیس طلبا ہوں۔
m ہر طالب علم کے پاس اپنی کتاب ہو تا کہ پڑھنے اور یاد کرنے میں آسانی ہو۔
m طلبا کو مضامین کا تعارف کرائیں اور مضامین کی مفہومی تعریف بتاکر، سمجھا کر طلبا میں پڑھنے کا شوق پیدا کریں۔
7 تعلیمی ایام
1 اس نصاب میں ہر مضمون سے متعلق دس اسباق دیے گئے ہیں، ہر سبق ایک ماہ میں پڑھائیں۔ اس طرح دس ماہ میں یہ مکمل ہوگا۔ بقیہ دو ماہ رمضان، عید الفطر، عید الاضحی ،وغیرہ کی تعطیل کے ہوں گے۔
2 اس نصاب میں ہر مہینے میں(۱) پڑھائی(۲) دہرائی(۳) ماہانہ جائزہ (۴) بزم (۵) تعطیل کے دن متعین کیے گئے ہیں۔
3 ہرمہینے میں بیس دن پڑھائی کے (ہر ہفتے میں پانچ دن)، چار دن دہرائی کے(ہر ہفتے میں ایک دن) ، ہرمہینے کے آخری دو دنوں میں سے ایک دن ماہانہ جائزہ اور دوسرے دن بزم ہوگی، یہ کل چھبیس دن ہوگئے اور باقی چار دن ہفتہ وار چھٹی کے ہوں گے۔
(۱ء۷) تعلیمی کیلنڈر:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ! اساتذہ کرام کی سہولت کے لیے’’ تعلیمی کیلنڈر‘‘ بنایا گیا ہے جس میں پڑھائی کے دن، دہرائی، ماہانہ جائزہ، بزم ، پنج ماہی اور سالانہ امتحانات اور تعطیلات وغیرہ کی مکمل تفصیل موجود ہے۔
(۲ء۷) نظام الاوقات:
1 پہلے دن حمد پانچ منٹ اور دوسرے دن پانچ منٹ نعت پڑھائیں ۔حمد ونعت (تمام طلبا کو اپنی اپنی جگہ یا قطار بناکر سیدھا کھڑا کرکے پائنچے درست کرانے کے بعد) طرز بناکر اونچی آواز سے پڑھائیں۔
2 نصاب میں شامل مضامین میں سے نورانی قاعدہ/ قرآن کریم تجوید کے ساتھ روزانہ پڑھائیں، بقیہ چھ مضامین دوحصوں میں تقسیم کرکے ایک دن ایمانیات، عبادات اوراحادیث ومسنون دعائیں اور دوسرے دن سیرت واسلامی معلومات، اخلاق وآداب ، عربی اور اردو زبان کا مضمون پڑھائیں۔
3 مضامین پڑھانے کے لیے اوقات مقرر کیے گئےہیں۔جن کی تفصیل یہ ہے:
ایک دن پڑھایا جائے
اوقات
افتتاحی اجتماع (حمد )
۵؍منٹ
نورانی قاعدہ
۳۰؍منٹ
ایمانیات
۵؍منٹ
عبادات
۱۰؍منٹ
احادیث و مسنون دعائیں
۱۰؍منٹ
دوسرے دن پڑھایا جائے
اوقات
افتتاحی اجتماع (نعت)
۵؍منٹ
نورانی قاعدہ
۳۰؍منٹ
سیرت واسلامی معلومات
۱۰؍منٹ
اخلاق وآداب
۱۰؍منٹ
زبان(عربی اور اردو)
۱۰؍منٹ
وضاحت: نورانی قاعدہ میں ۳۰ منٹ کی تقسیم :
1 گزشتہ کل کا سبق ہر بچے سے سننا : ۱۵؍منٹ
2 آج کے سبق کے ذریعے دہرائی: ۵؍منٹ
(دہرائی سے مراد حروف کی شناخت، مخارج اور اعراب وغیرہ ہے )
3 اگلا سبق چار طریقوں سے یاد کرانا۔ ۱۰؍منٹ
وضاحت : بقیہ دس منٹ میں:1 نماز کی ڈائری دیکھیں۔ 2 آج جو پڑھایا گیا ہے اس پر عمل کرنے کی ترغیبی بات ۔ 3گزشتہ کل کی مختصر کار گزاری سنیں کہ گزشتہ کل سے اب تک اس پر کتنا عمل کیا اور کس کس کو اس پر عمل کرنے کی دعوت دی ،نیز مضامین کے لیے جو اوقات دیے گئے ہیں ان میں کمی اوراضافے کی گنجائش ہے ۔ تربیتی نصاب حصہ اوّل آٹھویں، نویںاور دسویں مہینے میں اسباق کے آخری چار دن نورانی قاعدہ پڑھانے کے بجائے سورتیں یاد کرائیں۔
m قاعدہ ختم ہونے کے بعد ناظرہ قرآن روزانہ ۴۰ ؍ منٹ پڑھائیں اور روزانہ ۵ ؍ منٹ سورتیں یاد کرائیں ۔
ایک دن پڑھایا جائے
اوقات
حمد
۵؍منٹ
ناظرہ قرآن کریم
۴۰؍منٹ
حفظ سورۃ
۵؍منٹ
ایمانیات
۱۰؍منٹ
عبادات
۱۰؍منٹ
احادیث
۱۰؍منٹ
دوسرے دن پڑھایا جائے
اوقات
نعت
۵؍منٹ
ناظرہ قرآن کریم
۴۰؍منٹ
حفظ سورۃ
۵؍منٹ
سیرت و اسلامی معلومات
۱۰؍منٹ
اخلاق و آداب
۱۰؍منٹ
زبان (عربی اور اردو)
۱۰؍منٹ
(۳ء۷) خانوں میں نشانات اور دستخط کی ترتیب:
1 ہر سبق کے لیے جو دن متعین ہیں ان کو خانوں میں ظاہر کیا گیا ہے ۔
2 ہر روز متعلقہ مضمون کا سبق پڑھانے کے بعد کسی ذہین طالب علم کو کھڑا کر دیں تا کہ وہ سبق دہراتا رہے اس دوران استاذ محترم تمام بچوں کی کتابوں میں چلتے چلتے ایک خانے پر یہ ( ü) نشان لگائیں ۔
3 اگر سبق میں کچھ طلباغیر حاضر ہوں توغیر حاضری کے دنوںمیں خانوں پر (ü)کے بجائے ( غ) لکھ دیں ۔
4 سبق کے ختم پر دستخط کے خانوں پر مختصر دستخط کردیںاور طلبا کو اس بات کا پابند کریں کہ اپنے سرپرستوں کو سبق سناکر دستخط کرائیں۔
(۴ء۷) دہرائی کی ترتیب :
1 استاذ محترم کمزور طلبا کو از خود اجتماعی طور پر دہرائی کرائیں، بقیہ طلبا کی جوڑیاں بنائیں۔
2 دہرائی کے دن ساتوں مضامین کی دہرائی کرائیں۔
3 دہرائی کے دن اس ہفتے اور گزشتہ ہفتے میں پڑھائے گئے اسباق کی دہرائی کرائیں۔
4 استاذ محترم دہرائی کے دن از خود حسبِ ضرورت اوقات کی تقسیم کرلیں، جس مضمون میں کمزوری ہو اس کو بنسبت دوسرے مضامین کے زیادہ وقت دیں۔
5 مہینے میں ایک مرتبہ دہرائی والے دن وضو، نماز وغیرہ کی عملی مشق کرائیں۔
6 دہرائی والے دن افتتاحی اجتماع (حمد ونعت) اور کارگزاری اور واپسی کی بات نہ کریں، البتہ نماز کی ڈائری پر نشان لگائیں اور طلبا کے بال/ ناخن بھی چیک کریں۔
(۵ء۷) ماہانہ نصاب کی ترتیب :
1 اگر کسی مہینے کا نصاب کسی مضمون میں جلد مکمل ہوجائے تو اس کا بقیہ وقت دوسرے مضامین کے لیے استعمال کریں، کسی بھی مضمون کا اگلا سبق اس وقت تک شروع نہ کریں جب تک اس مہینے کے تمام مضامین کا سبق مکمل نہ ہوجائے تاکہ ہر مہینے کا نصاب تمام مضامین میں ایک ساتھ رہے اور کتاب ایک ساتھ ختم ہو۔
2 اگر کسی مہینے میں تمام مضامین کا نصاب جلد مکمل ہوجائے تو نورانی قاعدہ اور قرآن کریم پر محنت کریں۔
(۶ء۷) ماہانہ جائزہ:
1 ایک مہینے کا نصاب مکمل ہو جانے کے بعداس ماہ اور گزشتہ مہینوں میں پڑھائے گئے اسباق کا جائزہ لیں۔
2 ماہانہ جائزے میں کتاب کے آخر میں دیے گئے سوالات اور مزید سوالات بھی بچوں سے پوچھیں تاکہ مہینے بھر کا سبق ذہن نشین ہو جائے۔
m ماہانہ جائزہ کیلنڈر میں دی گئی تاریخ پر لیں۔
m استاذ محترم وقتا فوقتاجائزہ فارم میں طلبا کی نوعیت دیکھتے رہیں تاکہ کمزور طلبا پرمحنت کرنا آسان ہو۔
3 ماہانہ جائزے سے مقصود یہ ہے کہ جو طلبا جائزہ میں کمزور رہے ان پر خصوصی توجہ دی جائے تاکہ آئندہ وہ کمزوری باقی نہ رہے۔
(۱ء۶ء۷) ماہانہ جائزہ فارم کی وضاحت اور پُر کرنے کا طریقہ:
1 ایک فارم صرف ایک طالب علم کے لیے استعمال کریں۔ دوسرے طالب علم کے لیے دوسرا فارم استعمال کریں۔
2 ماہانہ جائزہ فارم پورے سال کے حساب سے بنایا گیا ہے، اس لیے سال بھر ایک طالب علم کے لیے ایک ہی ’’ماہانہ جائزہ فارم‘‘ استعمال کریں۔
3 ماہانہ جائزہ فارم میں طالب علم کا نام ، اس کے والد کا نام، استاذ محترم کا نام اورطلبا تربیتی نصاب کا جو حصہ پڑھ رہے ہیں وہ اور اس کی تاریخ آغاز کا اندراج کریں۔
4 شمسی تاریخ کا اندراج کریں۔
5 مقدار خواندگی کے خانے میں جتنے مہینے کا نصاب ہے اس کی وضاحت فرمادیں مثلاً: ایک یا دو۔
6 جس مضمون کا جائزہ لیں وہ مضمون اگر طالب علم صحیح سنائے تو ’’ب‘‘کے خانے میں ، اگر کچھ کمزوری ہے تو ’’م‘‘ کے خانے میں اور اگر بالکل کمزوری ہے تو ’’ک‘‘ کے خانے میں یہ ( ü ) نشان لگائیں۔
وضاحت: ’’ب‘‘ سے مراد بہتر، ’’م ‘‘ سے مراد مناسب اور ’’ک‘‘ سے مراد کمزور ہے۔
7 مہینے میں جتنے دن طالب علم مکتب میں آیا ہے حاضری کے خانے میں اس کی تعداد لکھیں ، ہفتہ وار ی تعطیل اور جس دن مکتب بند ہو اس کو بھی حاضری میں شمار کیا جائے۔
8 مہینے میں جتنے دن طالب علم رخصت لے کر مکتب نہیں آیا اس کی تعداد ’’رخصت‘‘ کے خانے میں اور جتنے دن بغیر رخصت کے مکتب نہیں آیا، اس کی تعداد ’’غیر حاضری‘‘ کے خانے میں لکھیں، اور اگر کوئی رخصت یا غیرحاضری نہ ہوئی ہو تو اس خانے کے نیچے یہ ( -) نشان لگادیں۔ واضح رہے کہ اگر جائزہ 29تاریخ کو لیں اور مہینہ 30کا ہو یا31کا ہو تو حاضری کا کالم مہینہ مکمل ہونے کے بعد پُر فرمائیں۔
9 ماہانہ جائزہ لینے کے بعد مقامی معاون کو ماہانہ جائزہ فارم دکھا کر دستخط کرالیں۔
– براہ کرم اہتمام سے ہر طالب علم کا جائزہ لے کر حسبِ ضابطہ فارم میں نوعیت درج فرمائیں۔
q جس ماہ پنج ماہی اور سالانہ امتحان ہو اس ماہ ’’ماہانہ جائزہ‘‘ نہ لیں البتہ اس ماہ کی حاضری کا خانہ اہتمام سے پُر فرمالیں ۔
(۷ء۷) ماہانہ بزم:
1 بزم والے دن کے لیے تربیتی نصاب میں شامل بیان ودعا کا مضمون اس طرح یاد کرائیں کہ پندرہ، بیس دن پہلے چند طلبا کو جو آسانی سے یاد کرسکیں گھر پر یاد کرنے کے لیے تیار کریں اور بچوں سے باری باری بزم والے دن کہلوائیں تاکہ پورے سال میں تمام بچوں کی بیان کی باری آجائےاور طلبا کو ٹھہر ٹھہر کر بیان کرنے کی عادت ڈالیں۔
2 عملی طور پر بچوں سے دعائیں کرائیں۔
3 حمد ونعت، قاعدہ / ناظرہ قرآن کریم /حفظ سورۃ پختگی، تجوید کے مقابلے کرائیں۔
4 جو اسباق بچوں کو پڑھائے گئے ہیں، طلبا کے درمیان ان اسباق کے باہمی مقابلے کرائیں۔
(۱ء۷ء۷) اسباق کے باہمی مقابلے کی ترتیب :
(الف) کلاس کے دو متوازن گروپ بنالیں ہر گروپ دوسرے گروپ سے کتاب کے تمام مضامین سے دس سوالات وجوابات کریں، ہر سوال کے دس نمبر ہوں۔ کوئی کمی بیشی ہو تو اس کے مطابق نمبر دیے جائیں۔ اگر دونوں گروپ تمام سوالات کے درست جوابات دیں یا نمبرات برابر ہوںتو مزید سوالات کیے جائیں۔
(ب) انفرادی انفرادی بھی مقابلہ کرائیں۔ ذہین طالب علم کا ذہین طالب علم کے ساتھ، کمزور طالب علم کا کمزور طالب علم کے ساتھ۔ اس کے لیے استاذ محترم ایک ہفتہ پہلے بتادیں کہ بزم میں فلاں طالب علم کا فلاں طالب علم کے ساتھ مقابلہ ہوگا۔ دونوں خوب تیاری کرلیں۔ اس طرح ہر ماہ بدل بدل کر طلبا کے مقابلے کرائیں۔
(ج) جہاں کلاسیں زیادہ ہوں تو کلاسوں کے آپس میں بھی مقابلے ہوسکتے ہیں۔
وضاحت:
m استاذ محترم! ان مقابلوں کے خود مُنصف بنیں اور انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں اور اگر طلبا کو سوالات کرنا نہ آئیں تو ان کو سوالات کرنا سکھائیں۔ ان مقابلوں میں استاذ محترم! طلبا کی حوصلہ افزائی بھی کرتے رہیں۔
m بزم میں دل چسپی کا ماحول بنایا جائے نہ کہ پڑھائی کا۔
m ماہانہ بزم کی یہ ترتیب ان شاء اللہ تعالیٰ سالانہ جلسے کی تیاری میں معاون ثابت ہوگی۔
(۸ء۷) غیر حاضر طلبا کی ترتیب :
1 اگر ایک جماعت میں کوئی طالب علم غیر حاضر ہو تو انفرادی طور پر خود یاکسی ذہین بچے سے پڑھالیں یا دہرائی کے دنوںمیں یاد کرانے کی کوشش کریں تاکہ اجتماعیت باقی رہے۔
(۹ء۷) سوا گھنٹے سے زائد وقت دینے والے طلبا کی ترتیب:
1 سوا گھنٹے سے زائد وقت دینے والے طلبا کی اگر مکمل جماعت ہے(اورا ستاذبھی فارغ ہے اور دوسری کلاس نہیں ہے) تو ایک سال کانصاب جلد ختم کرایا جاسکتا ہے۔
2 اگر مکمل نصاب سال سے پہلے مکمل ہوجائے اور سب طلبا کو یاد ہو تو اگلےسال کا نصاب شروع کردیں۔
3 سوا گھنٹے سے زائد وقت دینے والے طلباکی اگر مکمل جماعت نہیں ہے توانہیں حفظ سورہ میں لگائیں اور خاص کر یہ پانچ سورتیں ۔ ’’سُوْرَۃُ کَہْفْ، سُوْرَۃ یٰسٓ، سُوْرَۃ الٓـمٓ سَجْدَہْ ،سُوْرَۃ وَاقِعَۃْ اور سُوْرَۃُ مُلْكْ‘‘یاد کرائیں۔
(۱۰ء۷) نماز کی ڈائری :
1 طلبا نے اگر نماز جماعت کے ساتھ ادا کی ہے تویہ( ü) نشان لگائیں اور اگر بغیر جماعت کے وقت میں ادا کی ہے تویہ(-) نشان لگائیں۔
2 طالبات نے اگر نماز وقت پر ادا کی ہے تو یہ( ü)نشان لگائیں۔
3 طلبا اور طالبات نے اگر نماز قضاکی ہے تویہ(o) نشان لگائیں اور اگر قضابھی نہیں کی تواپنے سامنےنماز قضا کرواکر قضا کا نشان لگائیں۔
4 اس طریقے کے مطابق تاریخ کے اعتبار سے کچھ دنوں تک استاذ محترم خود نشان لگائیں ۔ پھر طالب علم کے والدین سے نماز کی ڈائری پُر کروائیں اور استاذ محترم روزانہ نماز کی ڈائری دیکھتے رہیںاگر نماز جماعت سے نہیں پڑھی گئی تو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی ترغیب دیں اور جو نماز نہیں پڑھی تو اپنے سامنے اس نماز کی قضا کروائیں، اس لیے کہ نماز کی ڈائری سے مقصود بچوں کو نماز کا پابند بنانا ہے۔
5 نماز کی ڈائری ۷؍ سال سے بڑے بچوں کے لیے ہے ۔ لہٰذا ۷؍سال سے چھوٹے بچوں نے اگر نماز وقت پر پڑھی ہے تویہ ( ü) نشان لگائیں ۔
6 ہر مہینے کے ختم پر دستخط کردیں اوربچوں کو اس بات کا پابند کریں کہ ہر مہینے کے ختم پر اپنے سرپرست سے دستخط کرائیں۔
وضاحت:
1 والدین نماز کی ڈائری پُر نہ کریں تواستاذ محترم اس کو پر کرنے کی ترتیب بنائیں ۔ جس کی صورت یہ ہے کہ اپنی نگرانی میں درس گاہ کے سمجھ دار طلبا سے نماز کی ڈائری پر کروالیں۔ 2 استاذ صاحب نماز کی ڈائری چیک کرنے میں سختی نہ کریں تاکہ طلبا سچ سچ لکھیں۔ یاد رکھیے! سختی سے اکثر فائدہ نہیں ہوتا۔ 3نماز کی ڈائری ’’تربیتی نصاب ابتدائیہ‘‘ میں نہیں ہے۔
(۱۱ء۷) ماہانہ حاضری اور فیس چارٹ:
m طلبا کی ماہانہ حاضری اور فیس چارٹ کے لیے پورے سال کا نقشہ بنایا گیا ہے۔
m استاذ محترم ہر مہینے کے ختم پر حاضری رجسٹر سے ایام تعلیم ، ایام حاضری، غیر حاضری اور فیس کی تفصیل اس پر لکھ دیں اور طلبا کو اس کا پابند کریں کہ اپنے سر پرست سے دستخط کروائیں۔
8 قرآن کریم کے حقوق
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کاکلام ہے ہم پر قرآن کریم کے پانچ حقوق ہیں:
1 قرآن کریم پرایمان لانا۔ 2 قرآن کریم تجوید کے مطابق پڑھنا۔
3 قرآن کریم سمجھنا۔ 4 قرآن کریم پرعمل کرنا۔
5 قرآن کریم کے الفاظ اورمعانی دوسروں تک پہنچانا۔
(۱ء۸) قرآن کریم پرایمان لانا:
قرآن کریم پرایمان لاناواجب ہے اورنہ لاناکفرہے۔
1 اللہ تعالیٰ کاارشادہے :
’’وَلٰکِنَّ الْبِرَّمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِِِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ‘‘ (سورۃ البقرۃ:۱۷۷)
ترجمہ:’’بل کہ نیکی یہ ہے کہ لوگ اللہ پر،آخرت کے دن پر،فرشتوں پر،اور اللہ کی کتابوں اور اس کے نبیوں پرایمان لائیں۔‘‘
2 دوسری جگہ ارشاد ہے :
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُونَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ ط اُولٰٓئِكَ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَمَنْ یَّکْفُرْبِہٖ فَاُولٰٓئِكَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ ۔ (البقرۃ:۱۲۱)
ترجمہ:’’جن لوگوںکوہم نے کتاب دی جب کہ وہ اس کی تلاوت اس طرح کرتے ہوں جیسااس کی تلاوت کاحق ہے ، تووہ لوگ ہی درحقیقت اس پرایمان رکھتے ہیں اور جو اس کاانکارکرتے ہوں،توایسے لوگ ہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔‘‘
(۲ء۸) قرآن کریم صحیح تجوید کےساتھ پڑھنا:
m تجوید لغت میں ’’تَحْسِیْنُ الشَّیْءِ‘‘ کسی چیز کو خوب صورت بنانا،عمدہ کرنا۔
m اصطلاحی تعریف: ہرحرف کواپنے مخرج سے تمام صفات کے ساتھ بغیر کسی تکلف کے اداکرنا۔
(۱ء۲ء۸) تجوید کی اہمیت (قرآن کریم سے) :
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم تجویداورترتیل کے ساتھ پڑھنے کاحکم دیاہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا ۔ (المزمل:آیت ۴)
ترجمہ:’’اورقرآن کریم کی تلاوت اطمینان سے صاف صاف کیاکرو۔‘‘
اس آیت میں صرف حکم ’’وَرَتِّلْ ‘‘ پرا کتفا نہیں کیا گیا بل کہ اہتمام اور تعظیم شان کے لیے اس کے مصدر ’’تَرْتِیْلًا‘‘ کو بھی ذکر کیا گیا۔
امام بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’جَوِّدِالْقُرْاٰنَ تَجْوِیْدًا۔‘‘
( قرآن کریم تجوید کے ساتھ پڑھو)یعنی اللہ تعالی کا حکم یہ ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت خوب صورت اور عمدہ طریقے سے آہستہ آہستہ اس طرح کرو کہ اس میں تجوید کے قواعد کی رعایت بھی ہو۔
ایک اورجگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’’وَرَتَّلْنٰـہٗ تَرْتِیْلًا۔‘‘ (الفرقان:۳۲)
ترجمہ:’’اورہم نے اسے ٹھہرٹھہر کر پڑھوایاہے۔‘‘
ترتیل کامطلب :
1 قرآن کریم کے حروف اورالفاظ کی ادائیگی صحیح اورصاف ہو:
”حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے کسی نے رات کی نمازکے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی کیفیت معلوم کی توانہوںنے نقل کرکے بتلایاجس میں ایک ایک حرف واضح اورصاف تھا۔“
(جامع الترمذی،فضائل القراٰن،باب ماجاء کیف کانت قراء ت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،الر قم:۲۹۲۳)
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ترتیل کاکم سے کم درجہ یہ ہے کہ قرآن کریم واضح،صاف اورحروف کو جداجداکرکے پڑھیں اورجلدی کامظاہرہ نہ کریں۔ ‘‘ (المرشدفی مسائل التجوید والوقف،ص:۵۰]
2 قرآن کریم کے معنی میں غوروفکر کرکے اس سے متاثر بھی ہو:
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیاگیا ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاایک شخص پرگزرہواجوقرآن کریم کی آیت پڑھ رہاتھا اوررورہاتھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایاکہ تم نے اللہ تعالیٰ کایہ حکم سناہے :
’’وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا ‘‘(معارف القرآن ۸/۵۸۸)
ترجمہ:”بس یہی ترتیل ہے (جویہ شخص کر رہاہے) ۔ “
3 قرآن کریم خوب صورت آوازمیں پڑھیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’زَیِّنُوْالْقُرْاٰنَ بِاَصْوَاتِکُمْ۔‘‘
(سنن ابی داؤد،الوتر،باب کیف یستحب الترتیل،الرقم:۱۴۶۸]
ترجمہ:’’قرآن کریم اچھی آواز کے ساتھ پڑھو ۔‘‘
ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے ۔
اِنَّ مِنْ اَحْسَنِ النَّاسِ صَوْتًا بِالْقُرْاٰنِ الَّذِیْ اِذَاسَمِعْتُمُوْہُ یَقْرَءُ حَسِبْتُمُوْہُ یَخْشَی اللّٰہَ ۔ (سنن ابن ماجہ ، اقامۃ الصلوات، باب فی حسن الصوت بالقرآن، الرقم : ۱۳۳۹]
ترجمہ:’’لوگوں میں سے سب سے اچھی آواز میں قرآن کریم پڑھنے والا شخص وہ ہے کہ جب تم اس کو قرآن کریم پڑھتے ہوئے سنوتوتم اس کے بارے میں یہ گمان کرو کہ اللہ سے ڈرنے والا ہے ۔‘‘
(۲ء۲ء۸) تجوید کی اہمیت (احادیث مبارکہ سے ):
1 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے :
’’اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ اَنْ یُّقْرَأَالْقُرْاٰنُ کَمَااُنْزِلَ ۔ ‘‘
(اعلاء السنن،المرشدفی مسائل التجوید والوقف ص۴۵ ]
ترجمہ:’’بےشک اللہ تعالیٰ پسند کرتے ہیں کہ قرآن مجید کو اسی طرح پڑھاجائے جس طرح کہ وہ نازل کیاگیا۔‘‘
2 حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو قرآن کریم پڑھتے ہوئے سنا اس نے تلاوت میں کسی جگہ غلطی کی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا:
’’اَرْشِدُوْا اَخَاکُمْ۔‘‘
ترجمہ: ’’تم اپنے بھائی کوپڑھنے کادرست اورصحیح طریقہ بتائو۔‘‘
3 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجوید کے ساتھ قرآن کریم پڑھایا۔
حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے سامنے ایک شخص نے اِنَّمَاالصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ بغیرمد کے پڑھا توحضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے فرمایا :
” ہمیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح نہیںپڑھایا جیساکہ تم نے پڑھا ۔ “
اس شخص نے کہا: ”آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح پڑھایا؟“
حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے فرمایا:
” اس طرح پڑھایا:لِلْفُقَرَآءِ (مدکے ساتھ) ۔“ (رواہ الطبرانی فی معجم الکبیر،بحوالہ عذار القرآن:ص۱۹۲)
تنبیہ: حضرت قاری رحیم بخش پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”دیکھو صرف ایک مَد کے چھوڑنے پر یہ فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس طرح نہیں پڑھایا۔ اس سے وہ لوگ عبرت حاصل کریں جو بہت سے حروف کو بھی غائب کردیتے ہیں۔ مَد کا تو ذکر ہی کیا ہے، نیز حروف کے صحیح کرنے کو بھی ایک بے فائدہ کام سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو وقت ضائع کرنا ہے یہ صراحتاًنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی خلاف ورزی ہے جس پر سخت وعیدآئی ہے۔“ (العطایا الوھبیۃ، صفحہ: ۱۳۰)
(۳ء۲ء۸) تجوید کی اہمیت (اکابرین رحمہم اللہ کی نظر میں ):
1 ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’اَلْعِلْمُ بِہٖ فَرْضٌ کِفَایَۃٌ وَالْعَمَلُ بِہٖ فَرْضٌ عَیْنٌ‘‘ (المرشد فی مسائل التجوید والوقف ،ص۵۰)
ترجمہ:’’یعنی اس بات میں کسی کااختلاف نہیں کہ تجوید کے قواعد کاجاننا فرض کفایہ ہے اوراس کے موافق عمل کرنا(یعنی تجوید کے مطابق قرآ ن کریم پڑھنا) فرض عین ہے ۔“
2 علامہ جزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
وَالْاَخْذُ بِالتَّجْوِیْدِ حَتْمٌ لَازِمٖٗ
مَنْ لَّمْ یُجَوِّدِ الْقُرْاٰنَ اٰثِمٗ
لِاَ نَّہٗ بِہِ الْاِلٰہُ اَنْزَلَا
وَ ھٰکَذَا مِنْہُ اِلَیْنَا وَصَلَا
ترجمہ:’’تجوید کے مطابق عمل(تلاوت میں) ضروری ہے جوشخص تجوید کے ساتھ قرآن کریم نہ پڑھے وہ گناہ گا ر ہے ۔‘‘
اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن تجوید کے ساتھ نازل فرمایا اوراسی شان سے اللہ تعالیٰ سے ہم تک پہنچاہے۔
(۴ء۲ء۸) تجوید کے فوائد:
1 اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل ہوتی ہے ۔
2 دونوں جہاں کی سعادت وکامیابی حاصل ہوتی ہے ۔
3 قرآن کریم کی تلاوت صحیح ،خوب صورت ہوجاتی ہے ۔
4 تجوید کے ساتھ تلاوت کرنے والاغلط پڑھنے کے گناہ سے بچ جاتاہے ۔
(۵ء۲ء۸) تجوید کے خلاف قرآن کریم پڑھنا :
حضرت مولانا سعید احمد خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے:
عذاب الٰہی کا سبب قرآن کریم صحیح تجوید کے ساتھ نہ پڑھنا ہے۔
1 امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کاقول نقل فرماتے ہیں:
’’رُبَّ قَارِیٍٔ لِلْقُرْاٰنِ وَالْقُرْاٰ نُ یَلْعَنُہٗ ‘‘
ترجمہ:’’یعنی بہت سے قرآن پڑھنے والے قرآن ایسا(غلط)پڑھتے ہیںکہ(غلط پڑھنے کی وجہ سے) قرآن ان پرلعنت کرتاہے ۔‘‘
اس سے وہ لوگ مراد ہیں جوقرآن کریم تجوید کے خلاف یعنی غلط پڑھتے ہیں یاقرآن کریم پر عمل نہیں کرتے ۔
(عذارالقرآن ، ص:۴۰)
2 تجوید کے خلاف قرآن کریم پڑھنے کو ــ’’لحن‘‘ کہتے ہیں۔
لحن کی دو قسمیں ہیں: 1 لحن جلی 2 لحن خفی
لحن جلی:
لحن جلی کھلی واضح اور صاف غلطی کو کہتے ہیں۔
حرف کو تبدیل کرنا۔ مثلاً:
قَلْبٌ کو کَلْبٌ پڑھنا۔
قَلْبٌ: بمعنی(دل) کَلْبٌ: بمعنی(کتا)
قُلْ کو کُلْ پڑھنا۔
قُلْ: بمعنی(کہہ) کُلْ: بمعنی(کھا)
اِسْمٌ: کو اِثْمٌ: پڑھنا
اِسْمٌ: بمعنی(نام) اِثْمٌ: بمعنی(گناہ)
حرکت کو تبدیل کرنا۔ مثلاً:
اَنْعَمْتَ کو اَنْعَمْتُ: پڑھنا۔
اَنْعَمْتَ: بمعنی(تونے انعام کیا) اَنْعَمْتُ: بمعنی(میں نے انعام کیا)
مُنْذِرِیْنَ کو مُنْذَرِیْنَ: پڑھنا۔
مُنْذِرِیْنَ بمعنی(ڈرانے والا ) مُنْذَرِیْنَ: بمعنی(ڈرایا گیا)
لحن جلی کا حکم :
یہ حرام ہے بعض جگہ اس سے معنی بدل جانے کی وجہ سے نماز بھی فاسد ہوجاتی ہے۔
لحن خفی:
چھوٹی اور پوشیدہ غلطی کو کہتے ہیں ۔ اس کی وجہ سے تلاوت کی خوب صورتی ختم ہوجاتی ہے۔
لحن خفی کا حکم:
لحن خفی کے ساتھ قرآن کریم پڑھنا مکروہ ہے۔
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ خود تجویداور اچھی آواز کے ساتھ تلاوت کریںاور بچوں پر بھی اس بات کی محنت کریں کہ وہ تجوید کی رعایت رکھتے ہوئے اچھی آواز کے ساتھ تلاوت کریںاور بہت زیادہ اس بات کا اہتمام کریں اور نگرانی رکھیں کہ کوئی بچہ/بچی قرآن کریم غلط پڑھنا نہ سیکھے، مجہول پڑھنے سے بچے ،لحن جلی اور لحن خفی سے پرہیز کرے ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم تجوید کے ساتھ نازل کیا ہے اور ہم تک مشائخ اور اساتذہ کرام کے ذریعے اسی طرح پہنچا ہے ۔ اس لیے ہم پر بھی لازم ہے کہ اس امانت کی پوری طرح حفاظت کریں اور اسی طرح اپنے بعد والوں تک پہنچائیں جس طرح ہم تک پہنچا ہے۔ ساتھ ساتھ طلبا کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کی عادت ڈالی جائے تاکہ دل قرآن کریم کی تلاوت سے متأثر ہوں۔
(۳ء۸) قرآن کریم سمجھنا:
1 حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
” اگرعلم چاہتے ہوتوقرآن کریم کے معانی میں غوروفکر کر وکہ اس میں اولین وآخرین کاعلم ہے ۔“
2 حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:
”پہلے لوگ قرآن شریف کواللہ تعالیٰ کافرمان سمجھتے تھے رات بھراس میں غوروفکر اورتدبرکرتے تھے اوردن کواس پرعمل کرتے تھے اورتم لوگ اس کو فرمان شاہی نہیں سمجھتے، اس میںغوروتدبر نہیں کرتے ۔“ (فضائل حفاظ القرآن،ص۴۴۴)
3 قرآن کریم سمجھنے کے لیے صرف عربی زبان جان لیناکافی نہیںبلکہ مفسرین اورعلماء کرام جنہوںنے اپنی زندگیاںقرآن کریم سیکھنے سکھانے کے لیے وقف کردیں ،ان کی خدمت میں حاضر ہوکرقرآن کریم سمجھاجائے ،اپنی رائے اورعقل کی پیروی ہرگزنہ کریں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
’’مَنْ قَالَ فِی کِتَابِ اللّٰہِ بِرَأْیِہٖ فَاَصَابَ فَقَدْ اَخطَأَ۔ ‘‘
(سنن ابی داؤد،العلم،باب الکلام فی کتاب اللّٰہ بلاعلم،الرقم:۳۶۵۲)
ترجمہ:’’جس نے قرآن کریم (کی تفسیر)میں اپنی رائے سے کچھ کہا اوروہ حقیقت میںصحیح بھی ہو تب بھی اس نے غلطی کی ۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ جوشخص قرآن کریم کی تفسیراپنی عقل اوررائے سے کرتاہے پھراتفاقا وہ صحیح بھی ہوجائے تب بھی اس نے غلطی کی کیوںکہ اس نے اس تفسیر کے لیے نہ احادیث کی طرف رجوع کیااورنہ ہی علماء امت کی طرف رجوع کیا۔(مظاہر حق)
(۴ء۸) قرآن کریم پر عمل کرنا:
قرآن کریم کاچوتھاحق ہرمسلمان پریہ ہے کہ وہ اس پرعمل کرے اوراسے اپنی زندگی کے لیے راہنما بنائے۔
1 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
’’مَنْ قَرَأَ القُرْاٰنَ وَعَمِلَ بِمَافِیْہِ اُلْبِسَ وَالِدَاہُ تَاجًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ضَوْءُہٗ اَحْسَنُ مِنْ ضَوْءِ الشَّمْسِ فِیْ بُیُوْتِ الدُّنْیَا لَوْکَانَتْ فِیْکُمْ فَمَاظَنُّکُمْ بِالَّذِیْ عَمِلَ بِھٰذَا۔‘‘
(سنن ابی داؤد،الوتر ، باب فی ثواب قرآءۃ القرآن، الرقم: ۱۴۵۳)
ترجمہ: ’’جس نے قرآن پڑھااوراس میں جوکچھ ہے اس پرعمل کیا،قیامت کے دن اس کے ماںباپ کو ایساتاج پہنایاجائے گا جس کی روشنی سورج کی روشنی سے بھی زیادہ حسین ہوگی، جب کہ وہ روشنی دنیاکے گھروں میںہو اورسورج آسمان سے ہمارےپاس ہی اتر آئے۔ (اس کے بعد حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) پھر تمہارا کیا گمان ہے خود اس آدمی کے بارے میں جس نے خود یہ عمل کیاہو ؟‘‘
مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کے پڑھنے اوراس پرعمل کرنے والے کے والدین کو جب ایسا تاج پہنایاجائے گاجس کی روشنی سورج کی روشنی سے بھی زیادہ حسین ترہوگی توسمجھ لوکہ خود اس قرآن پڑھنے والےاوراس پرعمل کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا کیا عطا فرمایا جائے گا۔
(معارف الحدیث ،کتاب الاذکاروالدعوات،قرآن پڑھنے اوراس پرعمل کرنے کاانعام ،۵/۷۵)
2 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
’’اَلْقُرْاٰنُ مُشَفَّعٌ وَمَاحِلٌ مُصَدَّقٌ مَنْ جَعَلَہٗ اَمَامَہٗ قَادَہٗ اِلَی الْجَنَّۃِ وَمَنْ جَعَلَہٗ خَلْفَ ظَہْرِہٖ سَاقَہٗ اِلَی النَّارِ۔‘‘(رواہ ابن حبان،۱/۳۳۱)
ترجمہ :’’ قرآن کریم ایسی شفاعت کرنے والاہے جس کی شفاعت قبول کی گئی اور ایسا جھگڑا کرنے والا ہے کہ اس کاجھگڑاتسلیم کرلیاگیا ۔جو شخص اس کو اپنے آگے رکھے یعنی اس پرعمل کرےاس کو یہ جنت میں پہنچادیتاہے اور جواس کو پیٹھ پیچھے ڈالدے یعنی اس پرعمل نہ کرےاس کو یہ جہنم میں گرادیتاہے۔‘‘
3 حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
یَھْتِفُ الْعِلْمُ بِالْعَمَلْ
فَاِنْ اَجَابَہٗ وَاِلَّا اِرْتَحَلْ
ترجمہ: علم عمل کو پکار تاہے اگر عمل نے علم کولبیک کہہ دیاتوٹھیک ورنہ علم بھی رخصت ہوجاتاہے۔
(الاحیاء للغزالی،ج۱/۶۵،فضائل حفاظ القرآن،ص،۲۲۵)
قرآن کریم پر عمل کرنے والے کا مقام:
4 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
’’یُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْاٰنِ اِقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ کَمَا کُنْتَ تُرَتِّلُ فِی الدُّنْیَا، فَاِنَّ مَنْزِلَكَ عِنْدَاٰخِرِ اٰیَۃٍ تَقْرَؤُھَا ۔‘‘
(سنن ابی داؤد،الوتر،باب کیف یستحب الترتیل،فی القراء ۃ ،الرقم:۱۴۶۴)
ترجمہ:’’ قیامت کے دن صاحب قرآن سے کہاجائے گاکہ قرآن کریم پڑھتا جا اور جنت کے درجات پرچڑھتاجا،اورٹھہرٹھہر کر پڑھ جیساکہ تو دنیامیں ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا تھا پس تیرامقام اس آخری آیت پرہوگاجسے توپڑھے گا۔‘‘
فائدہ: صاحب قرآن سے حافظ قرآن یاکثرت سے تلاوت کرنے والا یاقرآن کریم پرتدبرکے ساتھ عمل کرنے والامراد ہے ۔
(۵ء۸) قرآن کریم دوسروں تک پہنچانا:
قرآن کریم کا پانچواںحق یہ ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ اوراس کے احکامات دوسروں تک پہنچائیں یعنی قرآن کریم صحیح پڑھناسکھائیںاورلوگوں کو اس پرعمل کرنے کی دعوت دیں۔
(۱ء۵ء۸) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَہٗ۔‘‘
(صحیح البخاری،فضائل القرآن،باب خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ ،الرقم:۵۰۲۷)]
ترجمہ:’’ تم میں سب سے بہتروہ شخص ہے جوقرآن کریم سیکھے اوراس کو سکھائے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کریم سیکھتے اورنئے مسلمان ہونے والے صحابہ رضی اللہ عنہم کوقرآن کریم سکھاتے۔
(۲ء۵ء۸) حضرت مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ بھیجنا:
مکہ مکرمہ میں انصار کے دونوں قبیلوں(اوس وخزرج) کے سرداروں نے مسلمان ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:
”مدینہ منورہ میں قرآن اوردین کی تعلیم کے لیے کوئی معلم بھیجاجائے ۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیر کو مدینہ منورہ روانہ فرمایا:
سُبُلُ الھُدٰی والرَّشاد میں ہے :
فَلَمَّاانْصَرَفَ الْقَوْمُ بَعَثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَعَھُمْ مُصْعَبَ ابْنَ عُمَیْرِ بْنِ ھَاشِمٍ…وَاَمَرَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ یُّقْرِئَھُمُ الْقُرْاٰنَ وَیُعَلِّمَھُمُ الْاِسْلَامَ وَیُفَقِّھَھُمْ فِی الدِّیْنِ فَکَانَ یُسَمّٰی فِی الْمَدِیْنَۃِ الْمُقْرِیْ وَالْقَارِیْ وَکَانَ مَنْزِلُہٗ عَلٰی اَسْعَدِ بْنِ زُرَارَۃَ۔
(سبل الھدی والرشاد،الباب السادس فی بیعۃ العقبۃ الثانیۃ،۳؍۱۹۷)
ترجمہ:جب انصاربیعت کرکے(مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ) لوٹنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ حضر ت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا اورانھیں حکم دیا کہ ان لوگوں کو قرآن کریم پڑھائیں اوراسلام کی تعلیم دیں اوران میں دین کی بصیرت اورصحیح سمجھ پیدا کریں ،چناں چہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں ’’مُقرِی اورقاری‘‘ (یعنی پڑھانے والے) کے نام سے مشہور ہوگئے ان کاقیام حضرت اسعدبن زرارہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھا۔
(۳ء۵ء۸) مدینہ منورہ میں حضرت مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ بھی تعلیم دیتے تھے۔
بخاری شریف میں ہے :
’’اَوَّلُ مَنْ قَدِمَ عَلَیْنَا مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ وَابْنُ اُمِّ مَکْتُوْمٍ وَکَانُوْایُقْرِؤُنَ النَّاسَ ۔‘‘ (صحیح البخاری،باب مقدم النبی واصحابہ المدینۃ الرقم:۳۹۲۵)
ترجمہ: ’’ہمارے یہاں مدینہ میں سب سے پہلے مصعب بن عمیر اور عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہما آئے اور یہ حضرات لوگوں کو قرآن کریم پڑھاتے تھے۔‘‘
(۴ء۵ء۸) حدیث مبارک پر عمل کرنے کا اہتمام :
حضرت ابوعبدالرحمن سُلَمِی نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری ایام سے لے کرحجاج کے شروع دَور تک قرآن کریم پڑھایاہے اوریوں فرماتے تھے :
”مجھے اس حدیث ’’ خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَہٗ‘‘نے (جامع مسجد کوفہ کے)اس مقام پر قرآن کریم کی تعلیم کے لیے بٹھادیاہے۔“
(خلافت عثمان) کے اخیر سے حجاج کے شروع دور تک ۳۸ سال کاعرصہ ہے ۔
(فتح الباری ۹؍۷۶۵،فضائل حفاظ القرآن،ص:۶۸]
(۵ء۵ء۸) مسلمانوں کی تباہی کے دو اسباب :
حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے مالٹا جیل سے واپس آنے کے بعد فرمایا:
میںنے جہاںتک جیل کی تنہائیوں میںاس پرغورکیا کہ پوری دنیامیںمسلمان دینی اوردنیوی ہرحیثیت سے کیوںتباہ ہورہے ہیں تواس کے دوسبب معلوم ہوئے:
1 قرآن کریم کوچھوڑدینا
2 آپس کے اختلافات اورخانہ جنگی۔
اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کرآیاہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کولفظاً ومعنًا عام کیاجائے۔
بچوں کے لیے لفظی تعلیم کے مکاتب ہربستی بستی میںقائم کیے جائیں۔بڑوں کوعوامی درس قرآن کی صورت میں اس کے معانی سے روشنا س کرایاجائے اورقرآنی تعلیمات پرعمل کے لیے آمادہ کیاجائے اورمسلمانوں کے باہمی جنگ وجدال کوکسی قیمت پربرداشت نہ کیاجائے۔
(وحدت امت:حضرت مفتی شفیع صاحبؒ،ص:۴۰)
9 نورانی قاعدہ سے متعلق اہم تعلیمی ہدایات
m نورانی قاعدہ میں’’ تختی‘‘ کی جگہ ’’سبق ‘‘کا عنوان دیا گیا ہے ۔
m روزانہ سبق پڑھانے سے پہلے سبق کا مطالعہ کریں اور سبق کو آسان اور دل چسپ بناکر خوب محنت ولگن سے پڑھائیں۔
m روزانہ قاعدہ/ قرآن کریم کا سبق شروع کرنے سے پہلے تعوذ اور تسمیہ دونوں پڑھائیں۔
جس کی صورت یہ ہے:
سب سے پہلے تعوذ اور تسمیہ ٹکڑے ٹکڑے کرکے پڑھائیں۔
تعوذ چار ٹکڑوں میں اور تسمیہ تین ٹکڑوں میں پڑھائیں۔ جیسے:
تعوّذ:
اَعُوْ ذُ
بِاللّٰہِ
مِنَ الشَّیْطٰنِ الرْ
رَجِیْمِ
تسمیہ :
بِسْمِ اللّٰہِ الرْ
رَحْمٰنِ الرْ
رَحِیْمِ
m ٹکڑے کرنے میں اس بات کا خیال رہے کہ لفظ کے ٹکڑے نہ ہوں۔
m جب ٹکڑوں کی صورت میں طلبا / طالبات کو پڑھنا آجائے تو ملاکر پڑھنے کی مشق کرائیں۔
اجتماعی سبق سننے کی ترتیب:
m طلبا کو اپنی جگہ پر ہی بیٹھا رہنے دیں اور ہر ہرطالب علم سے سبق سنیں اور پوری کلاس بھی اس کا سبق سنے اور غلطی کی اصلاح بھی بچوں سے کروائیں۔
m قاعدہ اجتماعی طور پر پڑھائیں البتہ ہر ایک طالب علم کا سبق انفرادی طور پر سنیں۔
سبق ان چار طریقوں سے پڑھائیں:
1 استاذ کہلوائیں سب طلبا پڑھیں۔
2 تمام طلبا پڑھیں، استاذ سنیں۔
3 ایک طالب علم کہلوائے، سب پڑھیں۔
4 ایک طالب علم پڑھے،باقی سب سنیں۔
m اگر کسی جماعت میں اکثر طلبا دیر سے آتے ہوں ، وقت پر پہنچنے کی ترتیب قابو میں نہ آئے تو استاذ نورانی قاعدہ /قرآن کریم آخر میں پڑھائے ۔
m قاعدہ سے مقصود طلبا /طالبات میں ناظرہ قرآن کریم صحیح پڑھنے کی استعداد پیدا کرنا ہے۔ اس لیے قاعدہ پڑھاتے وقت ہر سبق سے متعلق قرآن کریم کی چار پانچ سطروں سے خوب مشق کرائی جائے ۔
m قرآن کریم صحیح پڑھنے اور لحنِ جلی وخفی سے بچنے کے لیے حروف کے مخارج کا صحیح ہونا ضروری ہے اس لیے مخارج کی طرف خصوصی توجہ دی جائے۔ سبق پڑھاتے ہوئے اور بچوں سےسبق کہلواتے ہوئے بچوں پر خصوصی نظر رکھیں اور روزانہ حروف کی ادائیگی درست کراتے رہیں۔ حروف کی صحیح ادائیگی کی محنت روزانہ اور مسلسل ہو تو کمزوری ختم ہوجائے گی۔
m مخارج حروف درست کرانا بہت آسان ہے، البتہ چند حروف مثلاً:
ث، ح، خ، ذ، ز ، ص، ض، ط ، ظ ، ع، غ، ق ان پر زیادہ توجہ دیں۔ چاہیں تو ایک ایک حرف کو ہدف بناکر درست کرایا جائے۔
m نورانی قاعدہ میں نقطے کا سبق اس طرح پڑھائیں، ایک نقطہ، دو نقطے، تین نقطے، لکیر کے اوپر ایک نقطہ، لکیر کےنیچے ایک نقطہ مثلاً:لکیر کے اوپر دو نقطے ، لکیر کے نیچے دو نقطے، لکیر کے اوپر تین نقطے۔
m قاعدہ کے ”سبق:۱ “ میں چار مختلف شکلوں کے ڈبے بنائے گئے ہیں،اس گول ڈبے سے مراد گزشتہ اسباق کی دہرائی ہے، اس گہری لکیر والے ڈبے سے مراد آج کا سبق ہے، اس دو لکیر والے چوکور ڈبے سے مراد آج کے سبق کی مشق ہے اور اس چھوٹے چوکور ڈبے سے مراد گزشتہ تمام اسباق کی مشق ہے۔
m تدریس کا اصول ہے’’ معلو م کی مدد سے نامعلوم کی پہچان کرائیں۔‘‘ اس لیے جب اگلا سبق شروع کرنا ہو اور اس سے ملتا جلتا سبق طلبا پڑھ چکے ہوں تو گزشتہ سبق کی مدد سےنیا سبق شروع کرائیں۔ مثلاً: ’’ب‘‘ کے ذریعے ’’ت‘‘ اور ’’ت ‘‘ کے ذریعے ’’ث‘‘ کی پہچان۔ ’’ج‘‘ کے ذریعے ’’ح‘‘ اور ’’ح‘‘ کے ذریعے ’’خ‘‘ کی پہچان کرائیں۔ ایسا کرنے سے بچے مانوس ہوجائیں گے اور باآسانی سبق سمجھ لیں گے۔ نیز گزشتہ سبق کی دہرائی بھی ہوجائے گی۔
m سبق سمجھانے کے لیے پہلے شکل، پھر جگہ، پھر اس کا نام پھر پڑھنے کا طریقہ بتائیں۔ مثلاً ’’زبر‘‘ سمجھانا ہو تو پہلے’’ زبر‘‘ کی شکل بتائیں، پھر اس کی جگہ کہ زبر ہمیشہ حرف کے اوپر ہوتا ہے۔ پھر اس کا نام کہ اس ترچھی سی لکیر کو’’ زبر‘‘ کہتے ہیں۔ پھر اس کے پڑھنے کا طریقہ بتائیں۔
m حرکات کے سبق سے بچوں کو ہجے اور رواں دونوں طریقوں سے پڑھائیں نیز”حرکات اور تنوین کی مشق“کے سبق سے وقف بھی کرائیں۔
m قاعدہ میں دیے گئے تجوید کے قواعد سمجھانے اور ذہن نشین کرانے کے ساتھ ساتھ صحیح پڑھنے کی مشق بھی کرائیں کیوں کہ اصل مقصود صحیح پڑھنا ہے۔
m ہر سبق کے تحت آنے والے قواعد طلبا اگر آسانی سے سمجھ لیں اور یاد کرلیں تو بہتر ہے ورنہ ان کے یاد کرانے پر زیادہ زور نہ دیا جائے البتہ ہر سبق صحت حروف اور قواعد کی رعایت کے ساتھ پڑھانا ضروری ہے۔
m نورانی قاعدے کا مکمل سبق بورڈ پر پڑھائیں۔
– بورڈ
(وضاحت: بورڈ کا سائز 3×4فٹ ہونا چاہیے)
(۱ء۱۰) بورڈ کی مدد سے پڑھانے کے فوائد:
1 ہر بچے کو انفرادی طور پر پڑھانے اور الگ الگ محنت کرنے میں بہت وقت خرچ ہوجاتا ہے جب کہ بورڈ کی مدد سے پڑھانے میں کم وقت میں زیادہ طلبا کو پڑھایا اورسمجھایا جاسکتا ہے۔
بورڈ پر پڑھانے سے بچے حروف اور حرکات کی شکل کو غلط سمجھنے سے بچ جائے گا۔
2 بورڈ پر پڑھانے سے بچے حروف اور حرکات کی شکل کو غلط سمجھنے سے بچ جاتے ہیں ۔
3 بورڈ پر پڑھانے سے بچے یکسوئی اور رغبت سے پڑھتے ہیں۔ سبق یاد ہونے کے ساتھ ساتھ حروف کی شکل ذہن نشین ہوجاتی ہے۔
4 کم وقت میں اور نسبتاً کم محنت سے زیادہ فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔(دیکھیے صفحہ نمبر۳۵)
5 بورڈ پر پڑھانے سے بچوں کی آنکھ، کان، زبان اور دماغ چاروں چیزیں مکمل وقت استعمال ہوتی ہیں۔
(۲ء۱۰) بورڈ کی مدد سے پڑھانے کے لیے ضروری اشیاء:
بورڈ پر پڑھانے کے لیے مندرجہ ذیل اشیاء کا ہونا ضروری ہے۔
1چاک یا مارکر۔ 2ڈسٹر 3وہ کتاب جو کہ پڑھائی جارہی ہو۔
(۳ء۱۰) بورڈ پر لکھنے کا طریقہ:
1 بورڈ ایسی جگہ اور اتنی اونچائی پر لگائیں کہ سب بچوں کو نظر آئے۔
2 بورڈ پر ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ لکھیں۔
3 جو سبق بھی پڑھایا جائے اس کا مضمون اور عنوان بورڈ پر لکھا جائے۔
4 بورڈ پر کل طلبا اورحاضر طلبا کی تعداد لکھیں۔ قمری یعنی چاند کی اور شمسی تاریخ لکھیں۔
5 سبق کو صاف اور خوش خط لکھا جائے اس طرح کہ خط بہت چھوٹا نہ ہو اور نہ ہی باریک ہو۔
6 بورڈ پر مثال لکھ کر تجوید کے قواعد سمجھائے جائیں ، قواعد نہ لکھیں۔
(۴ء۱۰) بورڈ پر پڑھانے کا طریقہ:
٭ نورانی قاعدہ، قرآن کا اجرا اور عربی، اردو زبان بورڈ پر پڑھائیں۔
1 طلبا کو بورڈ کے سامنے Uکی شکل میں بٹھائیں اور قطار بالکل سیدھی ہو۔
2 استاذ صاحب کو چاہیے کہ بورڈ کے ایک جانب اس طرح کھڑے ہوں کہ طلبا کو بورڈ پر لکھی ہوئی تحریر آسانی کے ساتھ نظر آئے، بورڈ پر لکھی ہوئی تحریر کے بالکل سامنے نہ کھڑے ہوں کہ کچھ بچوں کو تحریر نظر آئے اور کچھ کو نظر نہ آئے۔
٭ اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اگر بورڈ استاذ صاحب کے دائیں جانب ہو تو دائیں ہاتھ سے اور اگر بائیں جانب ہو تو بائیں ہاتھ سے اشارہ کریں۔
3 سبق پڑھاتے وقت یا پوچھتے وقت اشارہ اس لفظ یا حرف کے نیچے ہونا چاہیے۔
4 بورڈ پر پڑھاتے وقت طلبا سے پوچھا جائے ’’یہ کیا ہے؟‘‘ تاکہ طلبا متوجہ رہیں۔
5 بورڈ پر پڑھاتے وقت جو کچھ پڑھایا گیا ہے اس کو کتاب سے بھی پڑھائیں، پھر طلبا سے باری باری کہلوائیں۔
6 طلبا کو بورڈ پر بلاکر بھی پڑھوائیں۔
7 طلبا کو اس بات کا پابند کریں کہ بورڈ/ کتاب/ قرآن کریم پر نظر رکھیں اور سبق غور سے سنیں اور استاذ صاحب جب بات سمجھارہے ہو ںتو استاذ صاحب کو دیکھیں۔
8 طلبا کو سبق پڑھانے کے بعد ان میں سے ایک طالب علم کو بلائیں جسے آپ سمجھتے ہیں کہ سبق سمجھ میں آگیا ہوگا اس سے سبق دوبارہ کہلوائیں تاکہ دہرائی ہوجائے۔
q ناظرہ قرآن کریم اجتماعی پڑھانے کا طریقہ
1 تمام طلبا کو یکساں پارہ /قرآن کریم دیا جائے تاکہ تمام طلبا آسانی سے سبق کھول سکیں اور اساتذہ کرام کو نگرانی میں آسانی ہو۔
(۱ء۱۱) پڑھانے کی مدت:
1 قرآن کریم پڑھانے کی مدت تین سال ہے۔ یعنی پہلے سال میں تین پارے، دوسرے سال میں بارہ پارے اور تیسرے سال میں پندرہ پارے پڑھانے کی ترتیب ہے۔
2 ماہانہ نصاب پہلے ہی دن ۲۰ مساوی حصوں پر تقسیم کردیں۔
(۲ء۱۱) قرآن کریم میں ۴۰ منٹ کی تقسیم :
1 گزشتہ کل کا سبق ہر بچے سے مکمل سننا۔ ۲۰منٹ
2 بورڈ پر بچوں سے نشانات لگوانا۔ ۵منٹ
3 اگلا سبق ہجے، رواں اور چار طریقوں سے پڑھانا۔ ۱۵منٹ
(۳ء۱۱) ناظرہ قرآن کریم میں بورڈکا استعمال:
1 بورڈ پر مضمون کے تحت قرآن کریم اور عنوان کے تحت سورت کا نام اور آیت نمبر لکھیں۔
2 کوشش کریں کہ آج کے سبق میں سے بورڈ پر ایک آیت یا اس کا کچھ حصہ قرآن کریم سے دیکھ کر قرآنی رسم الخط کے مطابق لکھیں اور ایک قاعدے کا اجراء کرائیں۔
3 دہرائی والے دن کوئی ایک آیت بورڈ پر لکھ کر اس کا مکمل اجراء کرائیں۔
وضاحت : جب طلبا سبق سنارہے ہوں تو خوب دھیان سے سبق سنیں، اس وقت کسی اور کام مثلاً: بورڈپر قرآن کریم کی آیت لکھنا ، موبائل پر ایس ایم ایس لکھنا وغیرہ میں مشغول نہ ہوں تاکہ طلبا کے سامنے یہ بات واضح ہوجائے کہ جب قرآن کریم کی تلاوت ہورہی ہو تو اس کو توجہ سے سننا ضروری ہے۔ اس وقت کسی اور کام میں مشغول ہونا درست نہیںنیز طلبا کو بار بار اس بات کی تاکید کی جائے۔
(۴ء۱۱) ناظرہ قرآن کریم پڑھانے کا طریقہ:
1 تمام طلبا کو اس کا پابند کریں کہ سبق پڑھتے وقت / سنتے وقت دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی قرآن کریم پر رکھیں۔
2 قرآن کریم کا سبق اجتماعی ہوگا لیکن ہر ایک طالب علم سے سبق انفرادی طور پر سنا جائے گا۔ اگر طالب علم غلطی کرے تو پہلے استاذ خود اصلاح نہ کریں بل کہ طلبا کو پابند کرے کہ جس کو غلطی معلوم ہو وہ ہاتھ کھڑا کرے ، پھر استاذ اس طالب علم سے پوچھیں: اس نے کیاغلطی کی ہے؟ اور صحیح کیا ہے؟ ایسا کرنے سے اِنْ شَآءَ اللّٰہ غلطی کی درستگی ہوجائے گی نیز تمام طلبامتوجہ رہیں گے اور اگر طلبا نہ بتاسکیں تو خود اصلاح کریں۔
3 عمّ پارہ ہجے اور رواں دونوں طریقوں سے پڑھائیں ۔ پہلے ہجے کرائیں پھر رواں پڑھائیں۔ طلبا رواں صحیح پڑھنا سیکھ لیں تو صرف رواں پڑھائیں۔
4 جب ناظرہ قرآن کریم شروع ہوتو اس وقت قواعد بھی سمجھائیں اور اجرا بھی کرائیں۔
5 ناظرہ قرآن کریم کے اسباق کے ساتھ تجوید کے قواعد کو بھی شامل نصاب کیا گیا ہے۔ لہٰذا ناظرہ قرآن کریم پڑھاتے وقت ان قواعد کا اجراء ضرور کرائیں۔
6 استاذ محترم! سبق دیں تو تمام طلبا سے باربار کہلوائیں تاکہ درس گاہ میں ہی سبق از بر ہوجائے۔
8 طلبا کو اس بات کا پابند کریں کہ گھر پر روزانہ کم از کم دس مرتبہ آج کا سبق پڑھ کر آئیں۔
9 ناظرہ قرآن کریم حصہ سوم اور چہارم میں سبق کا جز سنیں اور مشکل الفاظ تمام طلبا سے سنیں ۔ اس بات کی کوشش کریں کہ طلبا وقت بڑھا دیں تاکہ ہر طالب علم کا مکمل سبق سنا جاسکے ۔
(۵ء۱۱) لمحہ فکریہ:
m کتنے افسوس اور فکر کی بات ہے کہ ایک بچہ نورانی قاعدہ اور تین پارے ناظرہ پڑھنے کے بعد حفظ کے مدرسہ میں حفظ کے لیے جاتا ہے تو حفظ کے استاذیہ کہہ کر دوبارہ نورانی قاعدہ/ ناظرہ قرآن کریم پڑھاتے ہیں کہ صحیح نہیں پڑھا، اس میں کتنی صلاحیتوں، اوقات اور مال کی ناقدری ہے اور ضیاع ہے۔
m کوشش کریں کہ ہر ہر بچہ کو اپنا سگا بچے سمجھ کر ایسی محنت کریں کہ قرآن کریم روانی سے صحیح تجوید کے ساتھ پڑھنا آجائے۔
w حفظِ سورۃ
m طلبا کو سورتیں یاد کرانے سے متعلق سب سے اہم ہدایت یہ ہے کہ اجتماعی طور پر تجوید کی مکمل رعایت کے ساتھ پڑھائیں۔ ہر سورت کو پہلے کچھ دن خود پڑھائیں پھر طلباسے باری باری پڑھوائیں ، اس طرح یہ سورتیں طلبا کو یاد ہوجائیں گی۔
m روزانہ پوری سورت نہ پڑھائیں۔ بل کہ ایک ایک آیت یاد کرائیں۔
e مضامین پڑھانے کا طریقہ
1 مضامین پڑھانے کے لیے روزانہ کم از کم آدھےگھنٹے کا وقت مقرر کیا گیاہے ۔
2 تمام مضامین اجتماعی طور پرپڑھائےجائیں ۔ البتہ ہر ایک طالب علم کا سبق انفرادی طور پر اس طرح سنیں کہ ایک طالب علم جب سبق سنارہا ہو تو باقی طلبا وہ سبق سن رہے ہوں اور طالب علم غلطی کرے تو استاذ خود غلطی درست کرنے کے بجائے طلبا سے پوچھیں کہ کیا غلطی کی ہے؟ اور صحیح کیا ہے؟ تاکہ تمام طلبا متوجہ رہیں۔
3 سبق ان چار طریقوں سے پڑھائیں:
1 استاذ کہلوائے سب طلبا پڑھیں۔
2 تمام طلبا پڑھیں، استاذ سنیں۔
3 ایک طالب علم کہلوائے ، سب پڑھیں۔
4 ایک طالب علم پڑھے، سب سنیں۔
4 چل پھر کر پڑھائیں۔
5 مطالعہ کرکے پڑھائیں۔
6 چہرے پر مسکراہٹ ہو۔
7 ہاتھ کے اشارے بھی حسب ضرورت ہوں۔
8 حوصلہ افزائی کے کلمات استعمال کریں۔
9 آواز یکساں ہو۔
– ہر بچے پر نظر ہو۔
q انگلی سبق پر ہو۔
w سبق کے بعد عمل کی ترغیب دینا۔
e مشکل الفاظ کی وضاحت کرنا اور بورڈ پر لکھ کر سمجھانا
r مثال دے کر سمجھانا ۔
t واقعات سنانا ۔
y کمزور طلبا سے باربار سبق کہلوانا۔
u عربی عبارت صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھانا۔
i نصاب میں کچھ اسباق ایسے ہیں جن کو زبانی یاد کرانا ہے، ان کے لیے یہ نشان ’’&‘‘ علامت کے طور پر رکھا گیا ہے اور چند اسباق ایسے ہیں جنھیں طلبا کو اچھی طرح سمجھانا ہے تا کہ ذ ہن نشین ہوجائیں، ان کے لیے یہ نشان’’ ٭‘‘ علامات کے طور پر رکھا گیاہے ۔
o بڑے جملے ٹکڑے ٹکڑے کرکے پڑھائیں، جب ٹکڑوں کی صورت میں پڑھنا آجائے تو مکمل جملہ پڑھائیں۔
rکمزورطلبا پر محنت کی اہمیت اور اس کا طریقہ
(۱ء۱۴) کمزورطلبا پر محنت کی اہمیت:
کمزور طلبا پر محنت کرنے سے اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت آتی ہے حدیث شریف میں آتا ہے:
’’ ھَلْ تُنْصَرُوْنَ وَتُرْزَقُوْنَ اِلَّابِضُعَفَآئِکُمْ‘‘
(صحیح البخاری،الجھاد،باب من استعان بالضعفاء، الرقم:۲۸۹۶)
ترجمہ:’’ تمہارے کمزوروں ہی کی وجہ سے تمہاری مددکی جاتی ہے اورتمہیں روزی دی جاتی ہے‘‘۔
اس لیے ہمیں کمزور طلبا پر خصوصیت کے ساتھ محنت کرنی چاہیے تاکہ ان پر محنت کرنے کی برکت سے اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت شامل حال ہوجائے۔
(۲ء۱۴) کمزورطلبا پر محنت کرنے کا طریقہ:
1 سب سے پہلے طالب علم کی کمزوری کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ طالب علم میں کمزوری کس اعتبار سے ہے:سماعت بصارت میں کمزوری ہے یا ذہنی کمزوری ہے؟
٭ اگر کمزوری کی وجہ سماعت ہو تو استاذ اپنے قریب بٹھائے اور آواز قدرے اونچی کرے ا ور اگر نگاہ کمزور ہو تو بورڈ کے قریب بٹھائے اور اس کے ساتھ ساتھ اس طالب علم کے والدین کو اس کے علاج کی طرف بھی متوجہ کریں۔
٭ اگر طالب علم ذہنی اعتبار سے کمزور ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ استاذ سبق باربار کہلوائیں، سبق کو آسان کریں اور نئی نئی مثالیںدے کرسمجھانے کی کوشش کریں۔ اس سے بھی کافی فرق پڑ جائے گا۔
٭ اگر کمزوری کی وجہ طالب علم کی جھجک ہو یا توتلا پن ہو تو ایسے طالب علم کو استاذ خصوصی توجہ دے اور کوشش کرے کہ کوئی اور طالب علم اس طالب علم کا مذاق نہ اڑائے۔
2 کمزور بچے پر اس طریقے سے محنت کریں کہ اس بچے کو اور کلاس کے دیگر طلبا کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ طالب علم کمزور ہے ۔
3 بعض بچے ڈر اور خوف کی وجہ سے گھبرا جاتے ہیں جس سے ان کی استعداد دب جاتی ہے ایسے بچوں سے نرمی کا برتاؤ کیا جائے تو ان کی کمزوری دور ہو سکتی ہے۔
4 کمزور طالب علم کو مَا شَآءَ اللّٰہُ ،جَزَاكَ اللّٰہُ خَیْرًاکہتے رہیں اور خوب حوصلہ افزائی کریں۔
5 بعض طلبا کی عمومی صحت کمزور ہوتی ہے جو ان کی تعلیمی کمزوری کا سبب بن جاتی ہے اگر ایسی صورت ہو تو والدین کو اس بچے کی صحت کی طرف متوجہ کریں۔
6 کمزور طالب علم کو نامناسب الفاظ اور مایوس کن کلمات ہر گز نہ کہیں اور نہ کبھی طعنہ دیں،جیسے:نکمے، جاہل، احمق، تو تو پڑھ ہی نہیں سکتا،تیری شکل پڑھنے والوں جیسی نہیں ہے، تو پڑھنے میں زیرو ہے، کھیلنے میں تو ہیرو ہے وغیرہ وغیرہ۔
7 کمزور طالب علم کو انفرادی وقت دیں۔
8 کمزور طالب علم کی ذہین طالب علم کے ساتھ جوڑی بنائیں ۔
9 کمزور طالب علم کو درس گاہ میں آگے بٹھا ئیں ۔
0- کمزور طالب علم سے آسان آسان سوالات پوچھیں تاکہ اس میں خود اعتمادی کی صفت پیدا ہو۔
q دہرائی والے دن سبق یا د کرانے کی کوشش کریں۔
w بزم والے دن کمزور طالب علم کاکمزور طالب علم سے مقابلہ کرائیں۔
e کمزور طالب علم کو اچھے مستقبل کی خوش خبری سناتے رہیںکہ محنت کرتے رہو اِنْ شَآءَ اللّٰہُ تمہاری محنت ضرور رنگ لائے گی۔
r کمزور طلبا کے والدین سے ملاقات کے دوران انھیں فکر مند تو ضرور کریں تاکہ وہ توجہ کے ساتھ دعائیں مانگیں البتہ والدین سے طالب علم کی خامیوں کا ایسا تذکرہ با لکل بھی نہ کریںکہ جس سے وہ مایوس ہوں۔
t استاذسچے دل سے اس بات کی نیت کرے کہ مجھے ہر حال میں ان کمزور طلبا کو اچھے طلباکی فہرست میں لانا ہے ،اِنْ شَآءَ اللّٰہُ جب استاذ سچی نیت کرے گا تو اللہ تعالی ضرور مدد فر مائیں گے۔
y کمزور طلبا کے نام لے کر فرض نمازوں کے بعد دعائیں مانگیں۔
t طلبا کے ساتھ برتائو
1 دورانِ سبق طالبِ علم کے ایک ایک منٹ کا صحیح استعمال کریںکیوں کہ طلبا بہت کم وقت کے لیے آتے ہیں۔
2 نیز درس گاہ میں داخل ہوتے وقت سلام کرنا حاضری لینا طلبا کے پاس کتابیںوغیرہ دیکھنا ان کی صحت اور صفائی کا خیال رکھنا، غیر حاضر طلبا کے بارے میں معلومات کرنا اور اگر بیمار ہوں تو ان کی عیادت کرنا اور ان کے لیے دعا مانگنا۔
3 استاذ شاگردوں سے ہمیشہ نرمی، محبت اور شفقت کا برتائوکریں، ان کو اپنے بیٹوں کے برابر سمجھیں اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اِنَّمَا اَنَا لَکُمْ مِثْلُ الْوَالِدِ لِوَلَدِہٖ اُعَلِّمُکُمْ۔‘‘
(سنن ابن ماجہ، الطہارۃ، باب الاستنجاء بالحجارۃ، الرقم:۳۱۳)
ترجمہ: ’’میں تم میں شفقت کے اعتبار سے ایسا ہوں جیسے باپ اپنے بچے کے لیے ہوتا ہے میں تمہیں سکھاتا ہوں۔‘‘
4 آداب تعلیم یعنی سکھانے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں محض اللہ تعالیٰ کی خوش نودی کی نیت کریں۔
5 ہر بچے کو اپنے بچے سے بھی زیادہ عزیزسمجھیں، ہر بچے پر ایسی ہی محنت ہو کہ گویا وہ آپ ہی کا بچہ ہے اور اس کے اخلاق کی نگرانی، اس کے ۲۴ گھنٹے کی زندگی کو اسلامی زندگی بنانے کی فکر کریں۔
6 بچوں کو ایسی شفقت سے پڑھائیں کہ بچے مکتب میں آنے کے لیے بے چین ہوجائیں اور شوق سے مکتب میں آئیں، ماں باپ اگر کہیں بھی کہ چھٹی کرلو تو پھربھی بچہ چھٹی کرنے پر آمادہ نہ ہو، بل کہ وہ اصرار کرے کہ میں تو مکتب جاؤں گا۔
7 استاذ طلبا سے زیادہ ہنسی مذاق نہ کریں، نہ بالکل سخت مزاج رہیں، بل کہ درمیانی راہ اختیار کریں، تاکہ وقار بھی برقرار رہے اور طلبا سہمے ہوئے بھی نہ رہیں۔
8 اپنے ہر قول و فعل میں طلبا کی بھلائی کو مد نظر رکھیں ، مدرسہ کے اندر کوئی ایسا کام نہ کریںجو کہ مدرسہ اور طلبا وغیرہ کے لیے نقصان دہ ہو ، بل کہ اپنے کردار سے یہ ثابت کریں کہ اگر طلبا کو یہ مضمون دیا جائے کہ ’’میرا پسندیدہ استاذ کون ہے‘‘ تو وہ آپ کا نام لیں۔
9 استاذ بچوں کے سامنے اپنےعمل سےا چھا نمونہ پیش کریں اور ہر برے عمل سے بچیںکیوں کہ ماں باپ سے بھی زیادہ استاذ کی نقل کرتے ہیں اور ان کی بات کو لیتے ہیں۔
– طلباکے سامنے دوسرے اساتذہ کی ذات اور ان کے طرزِ تدریس پر نکتہ چینی نہ کریں۔
q استاذ طلبا کے سامنے کسی علم وفن کی برائی نہ کریں مثلاً عصری علوم کے بارے میں کہ یہ تو دنیاوی علوم ہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں وغیرہ۔
w طلباکوہر ہر سبق اچھی طرح ذہن نشین کرانے کی کوشش کریں۔
e مدرس طلبا کی حوصلہ افزائی کریں۔
r بچے کی دین داری کی فکر کریں،اس کے لیےکبھی کبھی انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے قصے اور سچے واقعات سناکرطلبا میں پڑھنے کا شوق اورعمل کی رغبت پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
t استاذ طلبا کے ساتھ برابری کا برتائو کریں تاکہ کسی طالب علم کے دل میں حسد، رنج یا بدگمانی نہ ہو۔
y استاذ طلبا میں امیر اور غریب ہونے کے اعتبار سے ہرگز فرق نہ کریں ۔
u اگرمکتب میں غریب طلبا ہو ں تومعلم ان کی حسب استطاعت اعانت کرتے رہیں کیوں کہ یہ مدد طلب علم میں ہوگی جو کہ قرب خداوندی حاصل کرنے کا افضل ترین ذریعہ ہے۔
i غصے میں کبھی بچے کو سزا نہ دیجیے، اس لیے کہ اگر جرم سے زیادہ سزا دی گئی تو قیامت میں اس کا بدلہ دینا پڑے گا، اور دنیا میں اس کی سزا یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالی کی رحمت سے دور ہوجاتا ہے، پھر لوگ بجائے دین سےقریب ہونے کے دور ہوتے جائیںگے۔ لہٰذاطلباکے ساتھ شفقت اورنرمی والا معاملہ رکھیں۔
o اگرکسی شاگردکو کسی غلطی پر نصیحت کرنی ہو، اور وہ غلطی ایسی ہوکہ اگر سب کے سامنے ظاہر کی جائے تو اسے شرم آئے گی تو اسے اکیلے میں نصیحت کریں ۔
p استاذ طلبا سے کسی قسم کی خدمت نہ لیں اور تہمت کے مواقع سے بچیں ورنہ فتنے میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہے۔
a ایک بچے کی سزا تمام بچوں کو نہ دیں۔
s استاذ ہمیشہ اپنے طلبا کے لیے ان کی علمی، عملی ترقی کی دعا مانگتے رہیں، ہمارے اکابر اپنے طلبا کے لیے ہمیشہ دعائیں مانگاکرتے تھے۔
y علمِ نفسیات
m علم نفسیات مختلف حیوانی وانسانی فطرت وعادات اور جذبات کا علم ہے۔
m اصلاح معاشرہ، تعلیم وتربیت، تجارت وکاروبار، علاج ومعالجہ، حکومت وسیادت، جنگ وجدال وغیرہ تقریباًہر میدان زندگی میں اس کی ضرورت پیش آتی ہے۔
(۱ء۱۶)علم نفسیات جاننے کے فوائد :
m طالب علموں کی نفسیات جاننے سے تعلیم وتربیت میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔
m استاذ طلبا میں محبوب ومقبول بنتا ہے جس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ طلبا استاذ کی بات خوشی سے مانتے ہیں۔
m نفسیات سے واقف استاذ خشک سے خشک مضمون دل چسپ بناکر طلبا کے سامنے پیش کرسکتا ہے۔
m استاذ شرارتی بچوں کی اصلاح اچھی طرح کرسکتا ہے۔
m استاذ مار پیٹ کے بغیر طلبا پر اپنا وقار قائم کرسکتا ہے۔
m استاذ بچوں کو نظم ونسق کا عادی بناسکتا ہے اور ان میں تنظیمی صلاحیت پیدا کرسکتاہے۔
(۲ء۱۶)علم نفسیات نہ جاننے کے نقصانات :
m علم نفسیات سے ناواقف استاذ طلبا میں تعلیم حاصل کرنے کی رغبت کو ختم کردیتا ہے جیسے سبق یا د نہ کرنے پر اتنی پٹائی کی کہ بچے کا دل پڑھنے سے ہٹ گیا۔
m علم نفسیات سے ناواقف استاذ بچوں میں مجرمانہ ذہنیت پیدا کردیتا ہے۔ جیسے کوئی استاذ کسی بچے کو برے القاب (غنڈا، ڈاکو وغیرہ) سے پکارے تو چنددنوں بعد اس بچے میں اسی طرح کی ذہنیت پیدا ہوجاتی ہے۔
m علم نفسیات سے ناواقف استاذ سےبچے پریشان رہتے ہیں، اس کی پیٹھ پیچھے غیبت کرتے ہیں۔
m علم نفسیات سے ناواقف استاذ کا ادب واحترام بچے دل سے نہیں کرتے۔
m علم نفسیات سے ناواقف استاذ سے بچوں میں احساس کمتری اور احساس کہتری جیسے نفسیاتی مرض پیدا ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ذہین بچہ بھی اپنے کو کند ذہن سمجھنے لگتا ہے۔
(۳ء۱۶)احساسات:
m حیوانات کے علاوہ نباتات میں احساس ہوتا ہے۔ جیسے چھوئی موئی کے پودے کوہاتھ لگانے سےوہ تھوڑی دیر کے لیے مرجھاجاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ جس طرح حیوانات اور نباتات میں احساس ہوتا ہے اسی طرح جمادات میں بھی احساس کا عنصر پایا جاتا ہے۔ جیسےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں کھجور کے سوکھےدرخت کے تنے کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی سے رونا۔
(مسند عبد ابن حمید-۸۷۳)
m ابوجہل کے ہاتھ کی کنکریوں کا کلمہ شہادت پڑھنا اور پتھروں کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرنا۔ بہر حال یہ احساسات کی دنیا ہے اس میں اگر بچوں کے احساس سے بے اعتنائی برتی جائے تو کتنا بڑا ظلم ہے۔ اس لیے اس سبق میں ہم بچوں کے اندر پیدا ہونے والے احساس کا مطالعہ کریں گے۔
(۱ء۳ء۱۶)احساس برتری (Superiorty Complex):
m احساس برتری اس احساس کو کہتے ہیں جو غیر شعوری طور پر بچے میں پیداہوتاہے وہ خود کو دوسرے بچوں سے بہتر اور اعلی تصور کرتا ہے۔ ان سےملنے جلنے کو عیب سمجھتا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے لیکن احساس کمتری سے کم نقصان دہ ہے۔
(۲ء۳ء۱۶)احساس کمتری (Inferiority Complex):
m احساس کمتری اس احساس کو کہتے ہیں کہ جو غیر شعوری طور پر بچے میں پیدا ہوتا ہے اس کی وجہ سے بچہ اپنے کو دوسرے بچوں سے کم تر سمجھتا ہے۔ ایسا بچہ کبھی آگے ترقی کرنے کے بارے میں نہیں سوچتا۔ عام طور پر احساس کمتری کی یہ نفسیاتی بیماری ان بچوں میں پیدا ہوتی ہےجن کو ان کی غلطی پر، یا کام نہ کرسکنے پر، کام بگڑجانے پر بہت ٹوکا اور مارا جاتاہے۔ اس کو ایسے لقب وغیرہ سے پکارا جاتاہے جس لقب میں کمی کا اظہار ہوتا ہے جیسے بزدل، بیوقوف، کام چور، پھوہڑ وغیرہ۔
m حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
”میں بچپن میں دس سال تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خادم رہا مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی میری غلطی پر نہ ڈانٹا، نہ مارا اور کبھی یہ نہیں فرمایا کہ ایسا کیوں کیا ؟ “ (صحیح مسلم، الفضائل ، باب حُسن خلقہ صلی اللہ علیہ وسلم ، الرقم:۶۰۱۱)
اس حدیث سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نفسیات پر مہارت کا ثبوت ملتا ہے۔
m احساس کمتری، احساس برتری سے زیادہ نقصان دہ ہے لیکن احساس کہتری سے کم سنگین ہے۔
حوصلہ افزائی (Encouragement):
m جس بچے میں احساس کمتری کا مرض موجود ہو تو اس کے علاج کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اس کے معمولی کارنامہ کی بھی خوب ہمت افزائی کی جائے جس کی وجہ سے اس میں حوصلہ پیدا ہوگا اور وہ احساس کمتری سے نکلے گا۔
حوصلہ ہو تو اڑانوںمیں مزا آتا ہے
اپنی ناکامی کا غم بھی چلا جاتا ہے
(۳ء۳ء۱۶)احساس کہتری (Coarsety Complex):
احساس کہتری اس احساس کو کہتے ہیں جو غیر شعوری طور پر بچے میں ابھرتا ہے، اس کی سوچ گھٹیا ہوجاتی ہے اور بچہ خود کو مجرم شمار کرتا ہے۔ اس کی طبیعت جرائم کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہے، چوری، جھگڑا، لڑائی، دوسروں کا مذاق اڑانا اور غیر اخلاقی کام کرنا۔ ایسا بچہ اپنے استاذ کو یا اپنے ماں باپ کو اپنا خیر خواہ کے بجائے دشمن سمجھتا ہے۔ یہ نفسیاتی بیماری اکثر بری صحبت سے پیدا ہوتی ہے یا بچے کی خواہشات دبانے اور ہر وقت مارنے اور ڈانٹےسے وہ اپنے بڑوں کے مخالف سوچنا شروع کردیتا ہے اور اپنی ضروریات اورمسائل بڑوں سے حل کرانے کے بجائے خود حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی لیے رقم کی ضرورت ہو تو چوری کرتا ہے چاہے اپنے گھر سے کرے یا کہیں اور سے، جوا کھیل کر پیسے حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے بعض مرتبہ گھر سے بھاگ جاتا ہے، اسٹیشنوں پر عام طور پر جو لاوارث بچے پائے جاتے ہیں وہ اس احساس کہتری کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ نفسیاتی بیماری لڑکوں میں زیادہ ، لڑکیوں میں کم ہوتی ہے۔ یہ نفسیاتی بیماری سب سے زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے ۔ اس بیماری سے ایک دوسری بیماری بھی پیدا ہوتی ہے جس کو احساس خوف(Fear Complex) کہتے ہیں۔
(۴ء۳ء۱۶)احساس برابری (Equality Complex):
m احساس برابری اس احساس کو کہتے ہیں کہ جو دانستہ اور شعوری طور پر بچوں میں پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بیماری نہیں بل کہ اچھی صفت ہے ، اسلامی تعلیمات میں احساس برابری پیدا کرنے کے لیے نماز دی گئی ہے۔ آقا وغلام ایک صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
شہری اوردیہاتی کو جمعہ کی نماز میں ایک صف میں کھڑا کرکے برابر کردیا۔ اسی طرح عید میں پورے علاقے کو ایک ساتھ کھڑا کردیا اور حج میں پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک ہی لباس میں ایک میدان میں جمع کرکے احساس برابری کا سبق دیا۔
m نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی عَجَمِیٍّ وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ وَلَالاَِحْمَرَ عَلٰی اَسْوَدَ وَلَا لِاَسْوَدَ عَلٰی اَحْمَرَ اِلَّا بِالتَّقْوٰی اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ ۔“ (شعب الایمان)
ترجمہ:’’ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کسی سر خ کو کالے پر اور کسی کالے کو سرخ پر کوئی شرف ،نہیں سوائے تقوی کی وجہ سے، اللہ کے نزدیک سب سے بہتر وہ جو سب سے زیادہ متقی ہو۔ ‘‘
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے انہیں اپنی منزل آسمانوں میں
m جب بچوں میں احساس برابری جاگتا ہے تو وہ تعلیم میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے مدرسہ اور مکتب کا معیار تعلیم بلند ہوتا ہے۔
m احساس برابری پیدا کرنےکے لیے مندرجہ ذیل باتو ںکا خیال رکھنا چاہیے:
یکساں لباس(Uniform):
لباس کے فرق سے بچے کیا بڑے بھی نفسیاتی طور پر متاثر ہوتے ہیں جن مدرسوں میں یکساں لباس کا اہتمام نہیںہوتا وہاں کے خوش پوشاک بچوں میں احساس برتری اور معمولی پوشاک پہننے والے بچوں میں احساس کمتری جلد پیدا ہوتی ہے۔ بچوں میں اس احساس برابری کو پیدا کرنے کے لیے مدرسہ اور مکتب میں یکساں لباس (یونی فارم)کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
معلم کی توجہ (Teachers Concentration):
اگر استاذ کی چند ذہین بچوں کی طرف زیادہ توجہ رہتی ہے، تو دوسرے بچے احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس لیے معلم کو چاہیے کہ کسی ایک یا دو بچوں کی طرف اپنے میلان کا اظہار ذرہ بھی نہ کرے بل کہ تمام بچوں پر یکساں نگاہ رکھے اور ہر ایک پر برابر توجہ رکھے۔
برے القاب (Bad Titles):
m بعض اساتذہ کچھ بچوں کو گھٹیا القاب سے پکارتے ہیں۔ جیسے بدھو، بیوقوف،نالائق وغیرہ اس طرح کے القاب سے بچوں میں احساس کمتری پیداہوتی ہے وہ خود کو اسی لقب کے مطابق سمجھنے لگتے ہیں۔ اس لیے برے القاب کے ساتھ پکارنے سے پرہیز کیا جائے۔
عدل وانصاف (Justice):
m امتحانات میں نمبر دینے کا معاملہ ہو یا سالانہ جلسہ میں انعام وغیرہ دینا ہوتو صرف چند طلبا پرتوجہ اور التفات نہیں ہونا چاہیے بل کہ عدل وانصاف سے کام لیتے ہوئے ہر طالب علم کو اپنی صلاحیت پیش کرنے کا موقع دینا چاہیے۔
(۴ء۱۶)تعمیر شخصیت:
جس طرح بچوںکی تربیت کم عمری میں کی جاتی ہے، اسی طرح ان کی نفسیات کی تعمیر بھی کم عمری میں ہوتی ہے۔ یہاں نفسیات کی تعمیر کے چند اصول درج کیے گئے ہیں۔ ان اصولوں کے ذریعے بچوں کی شخصیت سازی میں اپنا کردار ادا کیجیے:
m جس بچے کی ہر وقت حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، اس میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔
غیر جو چاہتے ہیں سزا دیتے ہیں
آپ تو اپنے ہیں حوصلہ دیتے ہیں
m جس بچے سے شفقت کا معاملہ کیا جاتا ہے، وہ فرماں بردار بن جاتا ہے۔
m جس بچے سے سچائی کا معاملہ کیا جاتا ہے ،وہ انصاف پسند ہوجاتا ہے۔
m جس بچے کو تنبیہ کے لیے اللہ تعالیٰ سے ڈرایاجاتا ہے وہ متقی بن جاتاہے۔
m جس بچے کی ہمیشہ مار پیٹ کی جاتی ہے ،وہ باغی ہوجاتا ہے۔
m جس بچے کی بات اصرار کرنے اور رونے کے بعد پوری کی جاتی ہے، وہ ضدی ہوجاتاہے۔
m جس بچے پر بھروسا نہیں کیا جاتا ، وہ دھوکے باز بن جاتا ہے۔
m جس بچے پر شفقت نہیں کی جاتی، وہ مجرم بن جاتا ہے۔
m جس بچے کا ہروقت مزاق اڑایا جاتا ہے، وہ احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتاہے۔
m جس بچے پر ہر وقت تنقید کی جاتی ہے، وہ نافرمان ہوجاتا ہے۔
m جس بچے کو خیالیچیزوں سے ڈرایا جاتا ہے، وہ بزدل ہوجاتاہے۔
m جس بچے پر ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی ہے وہ لڑاکا بن جاتاہے۔
m جس بچے پر ہر وقت غصہ کیا جاتاہےوہ خوف زدہ ہوجاتا ہے اور بڑا ہوکر وہ ذرا ذرا سی بات پر غصے کا عادی ہوجاتاہے۔
m بچے کو مارپیٹ کرنے والے مربی (تربیت کرنے والے )سے انسیت کے بجائے بُعد پیدا ہوتا ہے۔
m بعض اساتذہ مارپیٹ کرنے میں حد سے تجاوز کرتے ہیں جس سے طلبا کو جسمانی نقصان پہنچتا ہے۔
m مارپیٹ کی وجہ سے بعض طلبا پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں یا ان کے والدین ہی مارپیٹ کی وجہ سے تعلیم ترک کروادیتے ہیں۔
m بعض مرتبہ مارپیٹ کی وجہ سے بچے گھر سے بھاگ جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ برے لوگوں کی صحبت میں چلے جاتے ہیں اور ان کی زندگی برباد ہوجاتی ہے۔ اس لیے ہمیں بچوں پر ایسے تشدد سے بچنا چاہیے۔
u نرمی اورشفقت کے ساتھ بغیرمارکےپڑھانا
استاذکو چاہیے کہ نرمی،شفقت،پیار اورمحبت کے ساتھ طلبا کوپڑھائے،خاص طورسے چھوٹے بچوں کو بہت نرمی اور شفقت کے ساتھ پڑھائے اوراپنے اندر بہت زیادہ قوت برداشت پیدا کرنی چاہیے۔
(۱ء۱۷) دین سکھانے کا طریقہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
’’عَلِّمُوْا وَبَشِّرُوْا وَلَاتُعَسِّرُوْا وَاِذَاغَضِبَ ا َحَدُکُمْ فَلْیَسْکُتْ۔‘‘
(مسند لامام احمدبن ابن عباس:۱؍۲۳۹)
ترجمہ:’’لوگوں کو دین سکھائو اورخوشخبریاں سنائو اوردشواریاں پیدانہ کرو،اورجب تم میں سے کسی کو غصہ آجائے توچاہیے کہ وہ خاموش ہوجائے۔‘‘
(۲ء۱۷) غلطی کی درستگی کا طریقہ
حضرت معاویہ بن حکم سُلَمِیْ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نمازپڑھ رہاتھا ایک آدمی کوچھینک آئی ،میں نے ’’یَرْحَمُكَ اللّٰہُ ‘‘ کہا ! لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کیا۔میں نے کہا: تمہیں کیاہوا ؟مجھے کڑوی کڑوی نگاہوں سے گھورتے ہو، لوگ مجھے چپ کرانے لگے مجھے سمجھ میں توکچھ آیانہیں، لیکن میںخاموش ہوگیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازسے فارغ ہونے کے بعدمجھے بلایا۔حضرت معاویہ فرماتے ہیں:
’’فَبِاَبِیْ وَاُمِّیْ مَارَاَیْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَہٗ وَلَابَعْدَہٗ اَحْسَنَ تَعْلِیْمًا مِنْہُ فَوَاللّٰہِ ! مَاکَھَرَنِیْ وَلَاضَرَبَنِیْ وَلَاشَتَمَنِیْ، قَالَ: اِنَّ ھٰذِہِ الصَّلَاۃَ لَایَصْلَحُ فِیْھَا شَیْئٌ مِنْ کَلَامِ النَّاسِ،اِنَّمَا ھُوَالتَّسْبِیْحُ وَالتَّکْبِیْرُ وَقِرَاءَۃُ الْقُرْاٰنِ ۔‘‘ (صحیح مسلم،المساجد،باب تحریم الکلام فی الصلاۃ ،الرقم:۱۱۹۹)
ترجمہ:’’میرے ماںباپ آپ پرقربان ہوں،میںنے آپ سے پہلے نہ تو آپ سے بہترین معلم دیکھا نہ آپ کے بعد ،اللہ کی قسم!نہ آپ نے مجھے ڈانٹا اورنہ مارا اورنہ ہی برابھلاکہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشادفرمایا:نمازمیں بات چیت کرنادرست نہیں نمازمیں توتسبیح اورتکبیر اورقرآن کریم کی تلاوت ہی ہے۔‘‘
(۳ء۱۷) غلاموں کو مارنے کی ممانعت:
حضرت معاویہ بن حکم سلمی فرماتے ہیں:
”میری ایک باندی تھی جومیری بکریاں اُحد پہاڑ کے قریب چرایاکرتی تھی۔مجھے اطلاع ملی کہ بھیڑ یا ریوڑ میں سے ایک بکری لے گیا ۔ انسان ہونے کے ناطے مجھے دکھ ہو ااور میںنے اس کو ایک تھپڑ ماردیا۔“
میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر ساراواقعہ سنایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اس فعل کوبہت ہی برابتایا۔
جس پرمیںنے عرض کیا:”اے اللہ کے رسول!میں اس کو آزادکردوں؟“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
”اس باندی کو میرے پاس لے آئو،میں اس باندی کو لے کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باندی سے پوچھا:
’’اَیْنَ اللّٰہُ؟‘‘ (اللہ کہاںہے؟)
اس نے جواب دیا:’’فِی السَّمَآءِ‘‘ (آسمان میں ) ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا:
’’مَنْ اَنَا‘‘(میں کون ہوں؟)
اس نے جواب دیا’’اَنْتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ‘‘(آپ اللہ کے رسول ہیں)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
”اس کو آزادکردو یہ ایمان والی ہے ۔ “
غورکیجیے!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی باندی کو مارنے پرکتنا برامحسوس کیا توآزاد کومارنے کی اجازت کس طرح ہوسکتی ہے ۔
(۴ء۱۷)چہرے پر مارنے کی ممانعت :
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَھٰی عَنِ الْوَسْمِ فِی الْوَجْہِ وَالضَّرْبِ۔‘‘ (جامع الترمذی ،الجہاد،باب ماجاء فی کراھیۃ التحریش بین البھائم،الرقم:۱۷۱)
ترجمہ:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرہ پرداغ دینے اورمارنے سے منع کیاہے۔‘‘
دس سال سے کم عمر بچوں کو مارنے کی شریعت میں اجازت نہیں۔اس لیے کہ نماز جیسے اہم عمل کے چھوڑنے پردس سال سے کم عمر بچوں کومارنے کی اجازت نہیں توکسی اورموقع پراجازت کیسے ہوسکتی ہے۔
(۵ء۱۷)استاذ کی ذمہ داری:
حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’بغیر کسی اجازت کے مارنے کا حق یاوالدین کو ہے یاحاکم کو یہ تیسرے میاں جی کہاں سے بیچ میں آگئے۔‘‘ فقہاء نے اس کو خوب سمجھا ہے ، وہ فرماتے ہیں : اگر کوئی عقد اجارہ میں یہ کہے کہ ” اتنا حساب پڑھانا مجھے یہ آجائے تو یہ دوں گا۔“ یہ اجارہ باطل ہے اور اگر یہ کہا :سکھائوپڑھائو خواہ آئے یا نہ آئے تو یہ جائز ہے کیوں کہ
استاذ کے اختیار میں صرف سکھلانا،پڑھاناہے ،آنا جانانہیں۔ (حقوق العباد،ص:۷۰)
(۶ء۱۷) غلطی کی اصلاح کرنا:
اصلاح کرنے سے پہلے تھوڑی تعریف کریں، انسان کو جب اس کی غلطی، کوتاہی بتائی جاتی ہے تو اس کو اچھا نہیں لگتا، اس لیےپہلے اس کی خوبی کا ذکر کرکے پھر غلطی بتائی جائے۔
(۱ء۶ء۱۷) حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا:
’’نِعْمَ الرَّجُلُ خُرَیْمُ الْاَسَدِیْ لَوْلَاطُوْلُ جُمَّتِہٖ وَاِسْبَالُ اِزَارِہٖ۔‘‘
ترجمہ:’’خریم اسدی اچھاآدمی ہے اگراس کے سرکے بال بڑھے ہوئے نہ ہوں اوراس کی تہہ بند ٹخنوںسے نیچے نہ ہو۔‘‘
حضرت خریم اسدی رضی اللہ عنہ کوجب یہ بات معلوم ہوئی تواپنے سرکے بال چھوٹے کرواکر اپنے کانوں تک کرلیے اورتہہ بند ٹخنوں سے اوپر کرلی آدھی پنڈلی تک ۔ (سنن ابی داؤد،اللباس،باب ماجاء فی اسبال الازار،الرقم:۴۰۸۹)
(۲ء۶ء۱۷)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کے بارے میں فرمایا:
’’نِعْمَ الرَّجُلُ عَبْدُاللّٰہِ لَوْکَانَ یُصَلِّیْ مِنَ اللَّیْلِ۔‘‘
ترجمہ:’’عبداللہ اچھاآدمی ہے اگررات کو تہجد کی نمازپڑھے۔‘‘
حضرت عبداللہ کے شاگردحضرت سالم فرماتے ہیں:
”حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما اس کے بعد رات کو بہت تھوڑاسا سویا کرتے تھے۔“
(صحیح مسلم،الفضائل،باب من فضائل عبداللہ بن عمر ،الرقم:۲۴۷۹]
(۳ء۶ء۱۷) ایک لڑکانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایاگیا جو انصار کے کھجورکے درختوںپرپتھر ماراکرتاتھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا ایساکیوں کرتے ہو؟
لڑکے نے کہا:”کھانے کے لیے۔ “
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نرمی اور شفقت سے ارشاد فرمایا:
’’ فَلَا تَرْمِ النَّخْلَ وَکُلْ مَایَسْقُطُ فِیْ اَسْفَلِہَا۔ ‘‘
ترجمہ:’’کھجورکے درخت پرپتھرمت ماراکرو،جو کھجوریں درخت سے نیچے گری ہوئی ہوںان کو اٹھاکر کھالیاکرو۔‘‘
پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شفقت سے اس کے سرپرہاتھ پھیرا اوریوں دعادی :
’’اَللّٰھُمَّ اشْبَعْ بَطْنَہٗ ‘‘
ترجمہ: ’’اے اللہ !تواس کاپیٹ بھردے ۔‘‘
(سنن ابی داود،الجہاد،باب من قال انہ یاکل مماسقط،الرقم:۲۶۲۲)
ان احادیث سے معلوم ہواکہ استاذ کو طالب علم کی غلطی اورکمی کی اصلاح ضرورکرنی چاہیے اورصحیح طریقہ کاربتاناچاہیے لیکن ایسا لہجہ اورانداز اختیارکریں جس کی وجہ سے طالب علم کی کمی دورہوجائے۔نرمی کے ساتھ خوبیوں کوسراہتے ہوئے غلطی کی نشان دہی کی جائے۔تویہ طریقہ زیادہ مؤثرہے اس موقع پرحوصلہ شکنی اورنازیبا الفاظ ہرگز مناسب نہیں ہے اورطالب علموں کے لیے دعابھی مانگنی چاہیے۔
(۷ء۱۷) تنبیہ کرنےمیں جلدی نہ کریں:
اگرکوئی طالب علم کسی طالب علم کی شکایت کرے توبغیر تحقیق کیے ہرگزکوئی فیصلہ نہ کریں،اس کی شریعت میں سخت ممانعت ہے اوراس کے بہت زیادہ نقصانات ہیں بسااوقات طالب علم جھوٹی شکایت کرتاہے یاغلط فہمی میں شکایت کرتاہے ،اگراستاذ نے اس موقع پرجلدبازی میں فیصلہ کرلیاتو توشکایت کرنے والا نڈر ہوجاتاہے ،بات بات پردوسرے طلبا کودھمکاتاہے ۔شکایت لگادوں گا تمہاری بھی ایسی ہی پٹائی ہوگی جیسے اس کی ہوئی تھی ۔
نیز جس طالب علم کو جھوٹی شکایت کی وجہ سے تنبیہ کی جاتی ہے اس کے دل میں استاذ کی نفرت آجاتی ہے، اس سے بڑھ کر کبھی ایسابھی ہوتاہے کہ وہ طالب علم اس برائی میں مبتلا ہوجاتاہے۔لہٰذاخوب سوچ سمجھ کر تحقیق کرکے کوئی رائے قائم کرنی چاہیے۔
i درس گاہ میں نظم وضبط
ایسا بہتر مناسب تعلیمی ماحول جس میں سیکھنا سکھانا، سمجھنا سمجھانا اور سبق کے مقاصد حاصل ہوں ’’درس گاہ میں نظم وضبط ‘‘ ہے۔
(۱ء۱۸) درس گاہ میں نظم وضبط نہ ہونے کی وجوہات :
1 اصول وضوابط کا متعین نہ ہونا۔
2 طلبا کا مصروف نہ ہونا۔
3 کلاسوں کا کھلے ہال میں بہت قریب قریب ہونا۔
4 طلبا کی عمروںمیں فرق ہونا۔
5 اندازکا دل چسپ نہ ہونا۔
6 درس گاہ کا ایسی جگہ ہونا جو لوگوں کی آمد ورفت کی جگہ ہو۔
7 ایک طالب علم کی غلطی کی سزا پوری جماعت کو دینا۔
(۲ء۱۸) درس گاہ میں نظم وضبط نہ ہونے کے نقصانات:
1 طلبامتوجہ نہیںر ہتے۔
2 طلباآپس میں بات چیت کرتے رہتے ہیں۔
3 طلباشرارت کرنے لگتے ہیں۔
4 طلبا کو سبق یاد نہیں ہوتا ، وقت ضائع ہوتا ہے۔
(۳ء۱۸) درس گاہ میں نظم وضبط بہتربنانے کےطریقے:
1 اصول وضوابط متعین کرنا۔مثلاً سوال کاجواب استاذ کے ذمے ہوگا۔لیکن ضابطہ یہ ہے کہ اجازت لے کرسوال کریں۔کوئی کسی کانام نہیں بگاڑے گا اوراستاذصاحب بھی ان بتائے ہوئے ضوابط کاخیال رکھیں۔
2 بچوں کے مسائل پرتوجہ دینااوران کو حل کرنا۔مثلا کسی طالب علم نے کہامجھے صاف نظرنہیں آرہا توبورڈپرصاف اورواضح خط میں لکھیں۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ طالب علم کی نگاہ کمزور ہو تو والدین کو اس طرف متوجہ کرنا اور اسے بورڈ کے قریب بٹھانا۔
3 مختلف مشقوں کے ذریعےبچوں کو مصروف رکھنا مثلابورڈ پرلکھوانا۔پڑھوانا،طلبا کے گروپ بنانا،گروپ بنانے میں اس کاخیال رکھنا ، ذہین ،متوسط،اورکمزور طلبا کے مجموعے کاگروپ بنائیں تاکہ ذہین طلبا متوسط اورکمزور طلباپرمحنت کریں اورمصروف رہیں۔ذہین طلباایک گروپ میں ، متوسط ایک گروپ میں ،کمزورایک گروپ میں ہرگزنہ رکھیں اس کانقصان یہ ہوگا کہ ہمیشہ ذہین طلبا ہی آگے رہیںگے،کمزور طلبا کی دل شکنی ہوگی۔
4 سبق کو دل چسپ بنانا،مثلاًمثال سے سمجھانا،ہاتھ کے اشارے سے وضاحت کرنا، دکھاکر سمجھانا،عمل کراکر سمجھانا،محسوس سے غیرمحسوس کو سمجھانا،آسان سے مشکل کوسمجھانا،معلوم سے نامعلوم کو سمجھانا۔
5 طلبا سے ان کی استعداد کے مطابق سوال کرنا،آسان ،درمیانے ،مشکل ہرطرح کے سوالات کرناتاکہ ذہین،متوسط اورکمزور ہرقسم کے طلبا سے سوال کیے جائیںتاکہ وہ مصروف رہیں،اورکوئی طالب علم سوال کرے توخود جواب دینے کے بجائے طلباسے جواب دلوائیں۔
6 طالب علم سبق سنانے میں اورپڑھنے میں غلطی کرے توخود اصلاح کرنے کے بجائے طلباسے اصلاح کرائیں، تاکہ سب طلبا دھیان سے سبق سنیں۔
7 اچھی کارکردگی پرحوصلہ افزائی کریں۔
8 برائی کونشانہ بنائیں،ہمیشہ کسی خاص طالب علم کوقصوروار نہ ٹھہرائیں۔ورنہ وہ بچہ ہمیشہ منفی سرگرمیوں میںآگے رہے گااوراستاذ کی عزت بھی نہیں کرے گا۔
9 بچوں کو اپنے غلط عمل کے نتائج سمجھائیں مثلاً یوںکہیں کہ جیسے آپ کو ڈانٹ ڈپٹ بری لگتی ہے اسی طرح آپ کابُرارویہ بھی دوسروں کو برالگتاہے۔
حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ایک جوان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا:
’’اے اللہ کےر سول! مجھے زنا کی اجازت دے دیجیے۔‘ ‘
صحابہ کرام اس جملے کی تاب نہ لاسکے ، برامنانا شروع کردیا اور اس سے کہنے لگے:
’’ایسی بات مت کرو۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نوجوان سے ارشاد فرمایا:
’’قریب ہوجائو۔‘‘ وہ جوان آپ کے قریب آکر بیٹھ گیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ارشاد فرمایا:
’’کیا تو چاہتا ہے کہ کوئی تیری ماں کے ساتھ زنا کرے؟‘‘
اس نے کہا: ’’اےاللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، اللہ کی قسم!میں اس کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اسی طرح اور لوگ بھی نہیں چاہتے کہ ان کی مائوں کے ساتھ زنا کیا جائے۔‘‘
غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹی، بہن، پھوپھی اور خالہ کے بارے میں یہی سوال وجواب کے بعد اپنا ہاتھ مبارک اس کے سینے پر رکھ کر یہ دعا دی:
’’اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ ذَنْبَہٗ، وَطَہِّرْ قَلْبَہٗ وَحَصِّنْ فَرْجَہٗ‘‘
(مسند الامام احمد، عن ابی امامہ، ۵:۲۵۶)
ترجمہ: ’’اے اللہ! اس کا گناہ معاف فرمااور اس کے دل کو پاک کر اور شرمگاہ کو گناہ سے محفوظ فرما۔‘‘
اس کے بعد وہ نوجوان اس گناہ کے قریب بھی نہیں ہوا۔
دیکھیے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسی حکمت کے ساتھ زنا کی نفرت اور برائی اس نو جوان کے دل میں بٹھائی۔
– جب کبھی خرابی ،طلباکی لڑائی اور جھگڑا دیکھیں تو فیصلہ بچے پرنہ چھوڑیں اوردونوں کی بات سن کر غور وفکرکرنے کےبعد فیصلہ کریں ، فورًا فیصلہ نہ کریں ۔
q بچوںکی ہربات پر’’نا‘‘ نہ کہیں۔جہاں ممکن ہو ان کی بات پر’’ہاں‘‘ بھی کہیں۔مثلاً بچے کہیں استاذ جی کوئی واقعہ سنادیں، فلاں طالب علم حمد اچھی پڑھتاہے ،اس کی قرأ ت اچھی ہے تو استاذ کبھی کبھی ایساکرلیاکریں۔
w طلباغلطی کریں ،غلط بات کریں تواشتعال میںنہ آئیں،بحث میں نہ الجھیں، مارپیٹ نہ کریں، بل کہ سمجھائیں، اور ان کے لیے دعا مانگیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی سے یہی بات معلوم ہوتی ہے ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ مسجد میں تھے۔ ایک دیہاتی آیا اور مسجد میں پیشاب کرنے لگا۔ صحابہ کرام یہ منظر دیکھ کر اس سے کہنے لگے :
’’رک جائو! رک جائو!‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ارشاد فرمایا:
’’اسے چھوڑ دو، کرنے دو۔‘‘
صحابہ نے اسے چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ پیشاب کر کے فارغ ہوگیا۔
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلاکر ارشاد فرمایا:
’’اِنَّ ھٰذِہِ الْمَسَاجِدَ لَا تَصْلَحُ لِشَیْءٍ مِنْ ھٰذَا الْبَوْلِ وَالْقَذَرِ،اِنَّمَا ھِیَ لِذِکْرِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَالصَّلوٰۃِ وَقِرَاءَ ۃِ الْقُرْاٰنِ۔‘‘
ترجمہ: ’’مساجد میں پیشاب کرنا اور گندگی پھیلانا درست نہیں۔ مساجد تو اللہ عز وجل کے ذکر ، نماز اور قرآن کریم کی تلاوت کے لیے ہیں۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے پانی منگوایا، وہ ڈول میں پانی لے کر آیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ پر پانی بہا دیا۔ (صحیح مسلم، الطہارۃ، باب وجوب غسل البول، الرقم: ۶۶۱)