14.1 _تعلیم بالغان کی اہمیت اور ضرورت

حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’قَد تَعَلَّمَ اَصحَابُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی کِبَرِ سِنِّہِمْ۔‘‘
(صحیح البخاری، العلم، باب الاغتباط فی العلم والحکمۃ، رقم الباب:۱۵ )
ترجمہ: ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عمر رسیدہ ہونے کے باوجود دین سیکھا۔ “
مطلب یہ ہے کہ علم کی تحصیل سے رکنا نہیں چاہیے بل کہ اس سلسلہ کو جاری رکھنا چاہیے کیوں کہ علم تو مہد (ماں کی گود)سے لحد(قبرمیں جانے) تک حاصل کیا جاتا ہے۔
حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جب ایمان نہیں لائے تھے اور جاہلیت کا دور تھا، انہیں خیر بتانے والا معلم بھی میسر نہیں تھا اور نہ انہیں علم کی رغبت تھی، ایمان لانے کے بعد اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان کو علم بھی عطا فرمادیا اور علم کی رغبت اور شوق بھی عطا فرمادیا، انہوں نے اس ضرورت کے پیش نظر علم حاصل کیا۔
چناں چہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
” کُنْتُ اُقْرِیُٔ رِجَالًا مِّنَ الْمُہَاجِرِیْنَ  مِنْہُمْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ۔“              (صحیح البخاری، الحدود، باب رجم الحبلی فی الزنی اذا احصنت، الرقم:۰ ۶۸۳)
ترجمہ: میں مہاجرین کی ایک جماعت کو پڑھایا کرتا تھا، ان میں حضرت عبد الرحمٰن بن عوف  رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔         (ماخوذ از: کشف الباری: ۳/۳۱۶)
معلوم ہوا کہ اصل تو یہی ہے کہ آپ پہلےعلم حاصل کریں لیکن اگر آپ علم حاصل نہیںکرسکے تو بڑے ہوکر بھی علم حاصل کرنا ضروری ہوگا۔