سالانہ جلسہ
’’سالانہ جلسے کا نظام بنائیں،اس میں طلبا کے والدین ، علاقے کے ذمے دار اور عوام کو شرکت کی دعوت دیں، موبائل، ایس ایم ایس کے ذریعے یاد دہانی کرائی جائے اور طلبا کو بہترین انعامات(شیلڈ) دیں۔‘‘
(۱ء۱۳) سالانہ جلسے کا مقصد اور اس کے فائدے:
1 جلسہ کا مقصد یہ ہے کہ عوام میں دینی بیداری پیدا ہوجائے۔
2 مکتب کی اہمیت پیدا ہوتی ہے اوردینی تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ اور شوق پیدا ہوتا ہےلوگوں میں مایوسی ختم ہوتی ہے اور حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔
3 نئے مکاتب کھلنے میں مدد ملتی ہےاور بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتاہے۔
4 بچوں میں اعتماد بڑھتاہے ،ذوق وشوق میں اضافہ ہوتاہے۔
5 مکتب کی تعلیمی نوعیت اوراس کے فوائدعوام کے سامنے آتے ہیں۔
6 معلم کی محنت عوام کے سامنے آتی ہے۔
7 بچوں کی جھجھک ختم ہوتی ہے اور ان میں مجمع کے سامنے بات کرنے کا سلیقہ پیدا ہوتا ہے۔
8 عوام کے سامنے یہ بات آجائے گی کہ ہمارے بچے قرآن کریم کے ساتھ ساتھ دین کی اہم بنیادی اور ضروری باتیں سیکھ رہے ہیں۔
(۲ء۱۳) سالانہ جلسے کا وقت اور جگہ:
1 سال میں ایک مرتبہ سالانہ جلسہ ضرور کیاجائے ۔
2 اس کا وقت دو سے ڈھائی گھنٹہ رکھاجائے(زیادہ سے زیادہ تین گھنٹہ)اورجلسہ کے لیے ایسادن اوروقت رکھاجائے جس میں علاقے کے تمام افرادجمع ہوسکیں۔
3 سالانہجلسہ مسجدمیں کیاجاسکتاہے۔
4 اگرمسجدمیں نہ ہوسکے تو کھلی جگہ میدان یاپھرکسی ہال میں بھی کیاجاسکتاہے۔
5 مقررہ وقت پرسالانہجلسہ شروع اور ختم ہو۔
6 اس کے لیے فضول اخراجات نہ کیے جائیں کم سے کم خرچ کیا جائے۔
(۳ء۱۳) سالانہ جلسے کا اعلان:
1 اشتہار ، دستی پرچے(پمفلٹ) ، دعوت نامہ اور ایس ایم ایس کے ذریعےسالانہ جلسے کا اعلان کرسکتے ہیں ۔
2 سالا نہ جلسے کے لیے دعوت نامہ بنایاجائے۔
3 دعوت نامہ میں وقت اور جگہ کا اندراج ہو۔
4 دعوت نامہ والدین اورخصوصی مہمان تک پہنچانے کی فکر کی جائے۔
5 سالانہ جلسے کا اعلان جمعے کی نماز کے بعد بھی کیا جائے۔جلسے سے ایک دن پہلے یاد دہانی کا میسج کیا جائے۔
(۴ء۱۳) سالانہ جلسے میں شرکت کرنے والے مہمان:
1 بچوں کے سرپرست اور ان کے احباب و متعلقین اور محلے یا بستی کے تمام افراد کو دعوت دی جائے۔
2 بچوں کواپنے والدین اور رشتہ داروں کو لانے کی ترغیب دیں۔
3 بستی اوراطراف سے کسی بزرگ، عالم دین اوراہل خیرحضرات کو دعوت دی جائے۔
4 ائمہ مساجد، مقامی اور اطراف کے علماء کرام اور حفاظ کو بھی دعوت دی جائے۔
5 اطراف کے مکاتب کے ذمے دار اور معلمین کو بھی مدعو کیا جائے۔
6 اطراف کے اسکول کے ذمے دار اور اساتذہ کرام کو بھی دعوت دی جائے۔
7 جس گاؤں و دیہات میں مکتب نہیں ہے تو وہاں کے مقامی ذمے داروں کو دعوت دی جائے تاکہ ان کا بھی شوق و جذبہ بنے کہ وہ اپنے گاؤں میں مکتب شروع کریں ۔
(۵ء۱۳) سالانہ جلسے میں پروگرام :
1 سالانہ جلسے میں دو طلبا کو ذکر ودعا میں بٹھایا جائےکہ وہ نفل پڑھ کر ذکر وتلاوت کرکے دعا مانگیں کہ اے اللہ! اس جلسے کو قبول فرماکر اس محلے اور ہر محلے میں بچوں اور بڑوں کی تربیت فرما۔
2 تمام طلبا وطالبات(آٹھ سال سےکم عمر بچیاں) کوپروگرام میں شریک کیاجائےتاکہ خود اعتمادی بڑھے۔
3 جلسے میںپیش کیے جانے والے پروگرام کا پہلے کاغذپر خاکہ تیار کریں۔مثلاً: پہلے تلاوت پھر طلبا سے حمد ونعت، سبق آموز مکالمے، سوال وجواب کی صورت میں اسباق میںسے مقابلے، تقسیم انعامات، بیان ودعا، آئندہ سال کےداخلے کا اعلان وغیرہ۔
4 بچوں کا انتخاب کرکے ان کو پروگرام کی مشق کرائیں۔
5 جلسے میں حصہ لینے والے بچوں کو پروگرام شروع ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے پہنچنے کی تاکید کریں تاکہ بچے پروگرام اچھی طرح پیش کرسکیں۔
6 جلسے میں حصہ لینے والے بچوں کو حاضری کی خاص طور پر تاکید کریں۔
7 پروگرام بناتے وقت طلباء کو دو جماعت میں تقسیم کریں ،پہلی جماعت ذہین بچوں کی جن کو انفرادی پروگرام دیں،دوسری جماعت متوسط بچوں کی جن کواجتماعی پروگرام مثلاً حمدونعت وغیرہ دیں۔
8 اجتماعی پروگرام پیش کیا جائے تاکہ کم سے کم وقت لگے اور زیادہ سے زیادہ بچے حصہ لے سکیں۔
9 اگر مکتب میں تعلیم بالغان کا بھی نظم ہو تو ان سے بھی پروگرام پیش کرائیں تاکہ بالغان کی تشکیل آسان ہو ۔
– بچے اور بچیاں(آٹھ سال سے کم عمر ) مکتب کے یونی فارم کے ساتھ پروگرام میں حصہ لیں ۔
q پروگرام نصاب میں سے ہو ، حمدونعت اور اخلاقی واصلاحی سبق آموز مکالمے نصاب کے علاوہ سے بھی لے سکتے ہیں۔
w مکتب کے فوائد کے اوپر ایک مکالمہ ضرور رکھا جائے۔
e نصاب کے تمام مضامین میں سے پروگرام پیش کیاجائے تاکہ بچے مکتب میںجو کچھ بھی پڑھ رہے ہیں وہ سب کے سامنے آجائے اور والدین کو معلوم ہوجائے کہ ہمارا بچہ مکتب میں کیا سیکھ رہاہے۔
r ایک سادہ کاغذ تقسیم کرکےجلسے میں شریک لوگوں کے تاثرات لکھواکر جمع کیے جائیں۔ (جلسہ کیسا رہا؟ بچوں نے کیسا پروگرام پیش کیا؟ آپ کو پروگرام کا کون سا حصہ سب سے اچھا لگا؟ مفید تجویز وغیرہ )۔
t جلسے کے شروع میں پروگرام کے متعلق اورجلسے کے اخیر میں مکتب سے متعلق ترغیبی بات کی جائے۔
(۶ء۱۳) سالانہ جلسے میں انعامات:
1 جلسے میں انعامات تقسیم کرنے سے بچوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اوردوسرے طلبا میں ذوق وشوق پیداہوتاہے۔
2 انعامات سے بچوں میں تعلیم کا جذبہ اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا شوق پیدا ہوتا ہے۔
3 انعامات کی تقسیم آخر میںبڑے عالم دین ،مہتمم، بزرگ اوراہل خیر حضرات کے ہاتھوں سے کرائی جائے ۔
4 سالانہ امتحان میں اول،دوم اورسوم پوزیشن لے کر کامیاب ہونے والےطلبا کو سالا نہ جلسے میں شیلڈ/ میڈل دی جائے۔
5 سال کے دوران مکمل حاضررہنے والے طالب علم،وقت پر پہنچنے والےطالب علم اورنماز کی پابندی کرنے والے طالب علم کو بھی انعام( شیلڈوغیرہ) دی جائے۔
6 کوشش کریں کہ جلسے میں شریک تمام بچوں کو عمومی انعام دیا جائے تا کہ حوصلہ افزائی ہو۔
7 جو بچے اچھے نمبرات سے کامیاب ہوئے ہیں ان کو مزید خصوصی انعام دیا جائے۔
8 علاقے کی بڑی شخصیت کے ہاتھ سے بھی انعام دلوائیں تاکہ وہ مکتب کے لیے معین و مددگار بنے۔
9 اگر امتحان میں کسی استاذ کے ۹۵فیصد طلباء ممتازہوں تو حوصلہ افزائی کے لیےاستاذ کوانعام دیا جائے۔
نوٹ: شیلڈ اور میڈل آپ ادارہ” مکتب تعلیم القرآن الکریم “سے قیمتاً منگواسکتے ہیں۔
(۷ء۱۳) جلسے میں ترغیبی بات، تشکیل اور دعا:
1 جلسے میںمکاتب کے فضائل ،اہمیت پھر اصول و ضوابط اور مقاصد کو بیان کیا جائے۔
2 ماں باپ کے سامنے اولاد سے متعلق والدین کی ذمے داریاں بیان کی جائیں۔
(دیکھئے صفحہ نمبر ۴۶)
3 مکتب کو منظم چلانے اور اس کا بھرپور تعاون کرنے کے لیے ارادے کرائیں۔
4 بچوں کو پابندی سے مکتب بھیجنے کے متعلق ہدایات دی جائے۔
5 جلسے میں موجودلوگوں کے بچوں کو مکتب بھیجنے کے لیے ترغیب دی جائے۔
6 جلسے میں موجودبالغ افراد کو مکتب میں آنے کے لیے ترغیب دیں اورانھیں اپنی ذمے داریوں کا احساس دلاکرباقاعدہ تشکیل کر کے بالغان کی جماعت بنائی جائے۔
7 جلسے میں موجودلوگوں کو ترغیب دی جائے کہ بچیوں کو بنات کے مکتب میں بھیجیں۔
8 مستورات کی تعلیم کی اہمیت بیان کی جائے اورعورتوں کو دینی ماحول بنانے کی فکر دلائی جائے ۔
9 داخلہ فارم بھی موجود رکھیں۔
– مزید مکاتب قائم کرنے کی ترغیب دی جائے۔
q دعاپرجلسے کا اختتا م ہواور دعا سے پہلےجلسے میں شرکت کرنے والے مہمان حضرات ،ائمہ کرام اور بڑے عالم جو تشریف لائے ہوں ان کا شکریہ ادا کیا جائے۔
w سالانہ جلسے میں شرکت کرنے والے مہمانوں کو جلسہ ختم ہونے کے بعد شکریہ کا ایس ایم ایس کیا جائے۔
r تعلیم بالغان
’’بالغان کے لیے دینی تعلیم کا انتظام کیا جائے۔ تعلیم کے اوقات فجر، مغرب اور عشاکے بعد رکھے جائیںاور ان کے ساتھ بہت حکمت سے معاملہ کیا جائے تاکہ وہ بھی دین کی اہم اور بنیادی باتیں جو فرض عین ہیں سیکھ سکیں۔ ‘‘
(۱ء۱۴) تعلیم بالغان کی اہمیت اور ضرورت:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’قَد تَعَلَّمَ اَصحَابُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی کِبَرِ سِنِّہِمْ۔‘‘
(صحیح البخاری، العلم، باب الاغتباط فی العلم والحکمۃ، رقم الباب:۱۵ )
ترجمہ: ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عمر رسیدہ ہونے کے باوجود دین سیکھا۔ “
مطلب یہ ہے کہ علم کی تحصیل سے رکنا نہیں چاہیے بل کہ اس سلسلہ کو جاری رکھنا چاہیے کیوں کہ علم تو مہد (ماں کی گود)سے لحد(قبرمیں جانے) تک حاصل کیا جاتا ہے۔
حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جب ایمان نہیں لائے تھے اور جاہلیت کا دور تھا، انہیں خیر بتانے والا معلم بھی میسر نہیں تھا اور نہ انہیں علم کی رغبت تھی، ایمان لانے کے بعد اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان کو علم بھی عطا فرمادیا اور علم کی رغبت اور شوق بھی عطا فرمادیا، انہوں نے اس ضرورت کے پیش نظر علم حاصل کیا۔
چناں چہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
” کُنْتُ اُقْرِیُٔ رِجَالًا مِّنَ الْمُہَاجِرِیْنَ مِنْہُمْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ۔“ (صحیح البخاری، الحدود، باب رجم الحبلی فی الزنی اذا احصنت، الرقم:۰ ۶۸۳)
ترجمہ: میں مہاجرین کی ایک جماعت کو پڑھایا کرتا تھا، ان میں حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ (ماخوذ از: کشف الباری: ۳/۳۱۶)
معلوم ہوا کہ اصل تو یہی ہے کہ آپ پہلےعلم حاصل کریں لیکن اگر آپ علم حاصل نہیںکرسکے تو بڑے ہوکر بھی علم حاصل کرنا ضروری ہوگا۔
(۲ء۱۴) فائدہ :
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ!بعض اسکول کی معلمات کے لیے ہفتہ میں ایک دن تعلیم ِ بالغات کا نظم بنا اس کا فائدہ محسوس ہوا۔معلمات میں پردہ ،سادگی اورفکر ِآخرت پیدا ہوئی۔
بعض جگہ ہفتے میں چار دن مردوں اور عورتوں کے لیے نظم بنا ،دین کی بہت ساری اہم باتیں جن کا جاننا اورسیکھنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے وہ معلوم ہوگئیں ،عربی زبان سے مناسبت پیدا ہوگئی،قرآن ِکریم صحیح پڑھنا سیکھا اور ا س کی تفسیر بھی پڑھی،جس سےنماز میں دل لگنے لگا۔
کوشش کریں کہ مکاتب میں تعلیم ِ بالغان کا نظم بنایا جائے تاکہ محلے کے وہ لوگ جن کا وقت ہوٹلوں ،پارکوں ، کلبوں میں بے کار گزر جاتا ہے ،اعمال اوراخلاق کےاعتبا ر سے بہت کمی آجاتی ہے ان کو دینی تعلیم سیکھنے میں لگا یا جائے اور ان کو مصروف رکھا جائے۔
ا س لیےکہ اَلْفَرَاغُ بَابُ الْمَعْصِیَۃِ (یعنی فراغت گناہ کا دروازہ ہے)۔
کتنے لوگ ہیں جو صبح میں نو دس بجے تک فارغ ہیں اور بعض لوگ شام پانچ تا رات عشا فارغ ہیں، ان کے اوقات کو قیمتی بنایا جائے ہر مسجد ، ہر محلے میں تعلیم بالغان کی درس گاہ قائم ہوگی تو بہت مفید ہوگا۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ!مردوں کے لیے اور مستورات کے لیے ” تربیتی نصاب برائے بالغان “ اور تربیتی نصاب برائے مستورات “ مرتب کیا جارہا ہے ۔
(۳ء۱۴) تعلیمی اوقات:
m مردوں کے لیے فجر اور عشا کے بعد ایک ایک گھنٹے کی جماعت بنائیں کیوں کہ یہ ان کے لیے سہولت کا وقت ہوتا ہے۔
m عورتوں کے لیے صبح نو تا گیارہ یا شام تین تا پانچ ایک ایک گھنٹے کی جماعتیں بنائیں ۔
m علاقے کی نوعیت اور ضرورت کے مطابق بڑوں کا وقت دوپہر میں یا کسی اور وقت میں بھی رکھ سکتے ہیں۔
m بڑوں کے لیے بچوں سے زیادہ سہولتیں رکھی جائیں تاکہ ان کو دوسری مشغولیات چھوڑ کر دین سیکھنا آسان ہوجائے۔
m بڑوں کے لیے الگ جماعت بنائی جائے ،انھیں بچوں کے ساتھ نہ بٹھایا جائے۔
t اسکول میں دینی تعلیم
’’دورکعت نماز پڑھ کر اللہ تعالیٰ سےدعا مانگ کراسکول کی انتظامیہ سے بات کریں کہ ایک پیریڈقرآن کریم اور ایک پیریڈ ’’تربیتی نصاب‘‘ پڑھائیں۔‘‘
(۱ء۱۵) اسکول میں دینی تعلیم کی اہمیت :
m اکثر بچے اسکول میں داخلہ لیتے ہیں اگر اسکولوں میں علم دین سکھایا جائے تو اکثر بچے عصری تعلیم کے ساتھ دین سیکھ لیں گے۔
m وہ طلبا و طالبات جو کسی مکتب میںنہیں پڑھتے وہ دین کا بنیادی علم حاصل کرلیں گے۔
(۲ء۱۵) ذمے داروں کی ذہن سازی:
m جب آپ دنیوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم کی فکر کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی مدد آپ کے ساتھ شامل ہوگی۔
m جب آپ قرآن کریم اور حدیث پڑھائیں گے تولوگ آپ سے دینی جذبے کے ساتھ جُڑیں گے۔
m قرآن و حدیث کی برکت سے بچوں کے ذہن کھلتے ہیں۔ ناموراسلامی مؤرّخ علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ نے لکھا ہے ” قرآن کریم تجوید کے ساتھ پڑھنے سے بچوں کے ذہن کے دریچے کھل جاتے ہیں اور مستقبل میںان کے باصلاحیت بننے کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں۔“
m جب آپ اسکول کے سالانہ جلسے میں تربیتی نصاب سے پروگرام پیش کریں گے تو والدین اور آنے والے دیگرمہمان حضرات متاثر ہوں گے اورطلبا کی تعداد میں اِنْ شَآءَ اللّٰہُ اضافہ ہوگا۔
m آسانی سے ہوسکے تو سوا گھنٹے کا وقت دیں تاکہ نورانی قاعدہ،ناظرہ قرآن کریم اور تربیتی نصاب مکمل پڑھایا جاسکے، ورنہ جو وقت آپ آسانی سے دے سکیں۔
(۳ء۱۵) اسکول میں تربیتی نصاب کی تعلیم:
m اسکول میں پہلے سے نظام موجود ہے۔صرف نصاب جاری کرنا ہے۔
m محترم پرنسپل اور محترم استاذکو ترغیب دینا اورذمے داری کا احساس دلاکر نصاب کے فوائد اور تجربات ان کے سامنےبیان کیے جائیں۔
m اسکول کی انتظامیہ سے ملاقات کرکے ان کی ذہن سازی کی جائے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ!اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اسکول میں پڑھنے والے طلبا/طالبات کی تعلیم و تربیت پر مشتمل پہلی جماعت سے آٹھویں جماعت تک کے لیے ‘ـ’’تربیتی نصاب برائے اسکول‘‘ مرتب کیا جارہا ہے جو اِنْ شَآءَ اللّٰہُ بچوں کی دینی ذہن سازی کے لیے مفید ہوگااوراس نصاب کے ذریعے بچوں میں سنتوں کا شوق، والدین کی قدر دانی اساتذہ کرام کا احترام آئے گا۔