1     مکتب کانظام
مختلف کاموں کو ان کے وقت مقررہ پر کرنے کے لیے تمام کاموں کا ایسا مناسب نظم بنانا کہ ہر کام اپنے وقت پرہوجائے، ایک کام میں مشغولی کی بناء پر دوسرے کام میں حرج نہ ہونے کانام ’’ نظام‘‘ ہے۔
نظام میں کل پندرہ(۱۵) نکات ہیں جن کی تفصیل ذکر کی جائے گی:

  1. نظام کی اہمیت اور فوائد۔
  2. مکتب کی جگہیں۔
  3. مکتب کیسے شروع کیا جائے؟
  4. معلم/معلمہ کا انتخاب۔
  5. داخلہ کا نظام
  6. مکتب کی بنیادی ضروریات۔
    7    مکتب کا ماحول۔         8    تعلیمی اوقات۔
    9    بنات کے مکاتب ۔          –    سرپرستوں سے ملاقات۔
    q    فیس۔                w     امتحانات۔
    e    سالانہ جلسہ۔             r    تعلیم بالغان۔
    t    اسکول میں دینی تعلیم۔
    1    نظام کی اہمیت اور فوائد
    اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز کو نظام کے ساتھ ترتیب دیا ہے۔ جیسے سورج کا ایک وقت مقر رہ پر نکلنا اور وقت مقررہ پر غروب ہونا سالہا سال سے یہی نظم ہے اسی طرح چاند کا گھٹنابڑھنا دن کے اجالے کے بعد رات کا اندھیرا، رات کے اندھیرے کے بعد دن کا اجالا ، یہ سب اللہ تعالی کے بنائے ہوئے ایک منظم نظام کے تحت ہے اور اس میں انسانوں کے لیے راحت ہے کہ ان کے اوقات متعین ہونے کی وجہ سے سب کو سہولت ہوتی ہے۔
    اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر کام منظم طریقے سے کرنا چاہیے۔ مکتب میں بھی نظام ہونا ضروری ہے، اس کے فوائد یہ ہیں:
    1    ہر کام وقت پر ہوگا اور کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوگی۔
    2    کم وقت میں زیادہ کام ہوگا۔
    3    بہترین نتائج حاصل ہوں گے۔
    2 مکتب کی جگہیں
    ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہ !مدارس کثیر تعداد میں موجود ہیں ان میں ، یا کسی کمرے میں یا تعلیمی اوقات کے علاوہ اسکول کے کمروں کو بھی مکتب کے لیے استعمال کرسکتے ہیں اور اگر فوری طور پر جگہ کا انتظام نہ ہوسکے تو مسجد میں مکتب شروع کریں ۔‘‘
    (۱ء۲)    مدرسے میں :
    مدارس میں مکاتب قائم کیے جائیں ۔
    اَلْحَمْدُ لِلّٰہ! ملک بھر میں مختلف مدارس دینیہ ہیں جن سے ہر سال ہزاروں علمائے کرام فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ ان مدارس میں مکاتب قرآنیہ قائم ہونے سے اس علاقے کے وہ عمومی مسلمان بچے جو حافظ عالم نہیں بن سکتے وہ بھی مستفید ہوں گے۔
    مدارس میں شعبہ کتب، شعبہ حفظ کا نظم موجود ہونے کی وجہ سے مکاتب قرآنیہ کی تعلیم بھی معیاری ہوگی جواہل محلہ کی درس نظامی اورحفظ کے مدارس کے ساتھ دل چسپی کا ذریعہ ہوگی۔
    (۲ء۲)   کمرہ میں :
    m    کمرہ خرید کر یا کرائے پر لے کر مکتب شروع کیا جائے۔
    m    گھر کے کسی کمرہ یا صحن میں بھی مکتب شروع ہوسکتا ہے۔
    (۳ء۲)    اسکول میں :
    m     اسکول میں دین سکھانے کا نظم بنائیں۔
    m    اسکول کے کسی خالی کمرہ میںتعلیمی اوقات میں مکتب شروع کریں۔
    m    اسکول کے تعلیمی اوقات سے پہلے یا بعد میں درس گاہ کومکتب کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔
    m      اسکول کی خالی جگہوں کو کرایہ پر لے کر مکتب شروع کرسکتے ہیں۔
    (۴ء۲)   مسجد میں :
    m     مکتب کے لیے مسجد کے علاوہ الگ جگہ ہو تو بہتر ہے ورنہ مسجد میں مکتب شروع کریں ۔
    m    مسجد کے آداب اورصفائی ستھرائی کا لحاظ رکھتے ہوئے مسجد میں مکتب قائم کریں ۔
    (۵ء۲)    دوسری جگہیں :
    m    عارضی آبادیوں یا خانہ بدوش قبیلہ میں بھی مکتب شروع کرسکتے ہیں۔
    m    آخری درجہ میں کسی درخت کے سایہ میں بھی مکتب شروع کرسکتے ہیں۔
    m    حکومت سے اجازت لے کر جیل میں مکتب شروع کرکے دین اور اچھے اخلاق کی تعلیم دے سکتے ہیں۔

3    مکتب کیسے شروع کیا جائے؟
1    مسجد /محلے کے ذمے داروں سے ملاقا ت اور مشورہ کریں۔
2     جمعہ میں بیان کریں۔
3     اشتہار ضرور تقسیم کریں ۔
(۱ء۳)      ذمے داروں سے ملاقا ت :
m    مسجد کی کمیٹی، امام صاحب،مقامی علماء اور مسجد وار جماعت کے ساتھیوں سے خصوصی ملاقات کریں ۔
m    ان کواُمت کے حالات بتا کر اور مثالی مکتب دکھا کر مکتب کے فائدے سمجھائیں ۔
m    ان کو مختصراً  نظام ونصاب سمجھا کر مکتب شروع کرنے کی ترغیب دیں اور جمعے میں بیان کرنے کی ائمہ کرام سے درخواست کریں۔
m    کسی بھی نماز کے بعد امام صاحب یا امام صاحب کی اجازت سے پانچ دس منٹ مکتب کی اہمیت پر بات کرکے نمازیوں کو ترغیب دیں کہ اپنے بچوں کو مکتب میں بھیجیں،اورداخلے کا اعلان بھی کریں۔
m    جہاں مسجد نہ ہو یا مسجد میں مکتب شروع کرنے کی اجازت نہ ملے تودو رکعت نماز پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ کر محلے کے فکرمندحضرات کا ذہن بناکر کسی کمرے میں مکتب شروع کریں۔
(۲ء۳)   جمعہ میں بیان:
m    مکتب شروع کرنے سے پہلے عوام کا ذہن بنانے کے لیے تین جمعہ بیان کریں۔
m    بیان کا مقصد یہ ہے کہ ہر فرد تک مکتب کی اہمیت ، فضیلت ، ضرورت، بچوں کی عملی تربیت اورنظام ونصاب کی تفصیلی معلومات پہنچ جائے اور عوام کی ذہن سازی ہوجائے ۔
m    پہلےجمعے میں علم کی فضیلت اور فرض عین سیکھنے پر بیان کیا جائے اور والدین کی ذمے داری بھی بتلائیں نیز بالغان (مرداورعورت) کی تعلیم اور اس کے فوائد بھی بتائے جائیں تاکہ مرد حضرات خود اپنی تعلیم کی فکر اور اپنے گھر کی مستورات کو مستورات کے مکتب میں بھیجنے کی فکر کریں ۔
m    دوسرے جمعے میں صحیح ترتیب پر مکاتب چلانے کے فوائد ، تربیتی نصاب کا مختصر تعار ف اور مکمل نصاب کا اجمالی خاکہ بتائیں۔
m    تیسرے جمعے میں مکمل تربیتی نصاب کا تعارف کراکر مکتب میں داخلے کی تاریخ بتائیں ، نیز دستی اشتہار (پمفلٹ) مسجد کے باہر تقسیم کیے جائیں اور نمازِجمعہ (فرض )کے فوراًبعد مکتب شروع ہونے کی تاریخ اور داخلے کی ترتیب کا مختصر اعلان بھی کریں۔کیوںکہ پورا مجمع اس وقت موجود ہوتا ہے۔
m         اگر جمعہ میں بیان نہ ہوسکے یا وہاں نمازِجمعہ نہ ہوتی ہو تو درس قرآن / درس حدیث /درس فقہ یاوہا ں کسی ایسے دن اوروقت میں جس میں لوگ آسانی سے جڑسکیں ، تمام لوگوں کو جمع کرکے مکتب کی اہمیت ، ضرورت بتاکر تربیتی نصاب اورنظام کے فائدے بیان کریں ۔
m     اس بیان کو سننے کے لیے اگرپردے اور لائوڈ اسپیکر کا معقول انتظام ہو تو یہ بیان مستورات میں بھی سنانے سے زیادہ فائدہ ہوگا کیوں کہ بچوں کو مکتب بھیجنے اور ان کی تعلیم اور تربیت میں مستورات زیادہ فکر مند ہوتی ہیں ۔
m    اگر مکتب کسی کمرے میں شروع کرنا ہو تو قریب کی مسجد میں بیان کیا جائے اوراس مسجد کے باہردستی اشتہار (پمفلٹ) تقسیم کیے جائیں اور جداری اشتہار لگائے جائیں۔
m    اگر مکتب مسجد میں نہ ہو اور اطراف کی مساجدمیں بیان کی اجازت نہ ہو توان مساجد کے باہر اشتہار (پمفلٹ) تقسیم کیے جائیںاور جداری اشتہار لگائے جائیں۔
m     نماز کے بعد مکتب میں داخلہ کا مختصر اعلان کیا جائےاور داخلہ کا اعلان مسجد کے بورڈ پر لکھ دیں۔
m    نماز جمعہ کے بعد دفتر سے داخلہ فارم دیے جائیں اور سرپرستوں سے رابطہ نمبر لیے جائیں۔
m        ہر تین مہینے میں ایک مرتبہ بچوں کی تعلیم وتربیت پر عوام کے سامنے جمعہ میں بات کی جائے۔
(۳ء۳)    اشتہار(آئودین سیکھیں):
m     اشتہار تین طرح کا ہو:
1    دستی اشتہار۔ (پمفلٹ)
2    اشتہاری پردے۔(ہورڈنگ)
3    جداری اشتہار۔
دستی اشتہار تقسیم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ گاؤں یا محلے کے ہر گھر اور ہر فرد تک مکتب کی اطلاع پہنچ جائے۔
(۱ء۳ء۳)    دستی اشتہار( پمفلٹ )کیسا ہو؟
m    اشتہار(پمفلٹ) علاقائی زبان میں ہوتاکہ لوگوں کو سمجھنے میں سہولت ہو۔
m     نصاب کا تعارف اور مختصر ترغیب ہو۔
m     بنیادی مضامین اور  نصاب کا مختصرخاکہ بھیہو۔
m     تعلیم کا وقت لکھا ہوا ہو۔
m     مکتب کا نام اور پتہ لکھا ہوا ہو۔
m     ذمے داروں کے نام اور رابطہ نمبر موجود ہوں تاکہ حسب ضرورت داخلے سے متعلق معلومات حاصل کی جاسکے۔
m    مکتب میں شعبہ حفظ یا تعلیم بالغان، تعلیم مستورات شروع کرنے سے پہلے دستی اشتہارپمفلٹ تقسیم کریں ،تاکہ لوگوں کو اطلاع ہو جائے۔
m    ہر نئے تعلیمی سال کے شروع میں طلبا کو اس سال کے نصاب کا خاکہ دیںتاکہ والدین کو معلوم ہو کہ میرا بچہ اس سال کیا پڑھنے والا ہے ۔
(۲ء۳ء۳)     اشتہاری پردہ(ہورڈنگ )کیسا ہو؟
m    اشتہار(ہورڈنگ) علاقائی زبان میں ہوتاکہ عوام کو سمجھنے میں سہولت ہو۔
m    اس میں ساتوں مضامین کامختصر خاکہ ہو۔
m    اشتہاری پردہ مسجد کے باہر لگائیں۔
m    جداری اشتہارمسجد کے باہر ایسی جگہ لگائیں جہاں نمازی آسانی سے دیکھ سکیں۔
(۳ء۳ء۳)  اشتہار کےدوسرے طریقے :
m    مساجد کے بورڈ کو بھی مکتب کے اعلانات کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔
m    لوگوں کو فون اور smsکے ذریعے بھی مکتب شروع ہونے کی اطلاع کریں۔

4    معلّم کا انتخاب
’’بچوں کی اچھی تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ استاذ کا قرآن کریم صحیح ہو اور وہ تربیت یافتہ ہو، چناںچہ مقامی ذمے دار(یعنی مکتب کی کمیٹی والے) حضرات علمائے کرام کے ذریعے معلم کا تقرر کریں اور معلم کو تربیت دینے کے لیے ادارہ مکتب تعلیم القرآن الکریم فائونڈیشن میں ترتیب بنا کر بھیجیں۔‘‘
(۱ء۴)   معلِّم کی صفات:
1     استاذ کا قرآن کریم صحیح ہونا ضروری ہے تاکہ بچوں کا بھی قرآن کریم صحیح ہو۔
2    استاذ عالم اور حافظ ہوں۔ اگر استاذ عالم نہ ہوں تو کم از کم قرآن کریم صحیح ہو اور اردو لکھنا پڑھنا جانتے ہوں نیز سنجیدہ طبیعت ہوں۔
3    استاذ تین روزہ تربیتی نشست میں شرکت کرچکے ہوں۔
4    ادارے کے اصول وضوابط سے واقف ہوں اور ان کی پابندی کرنے والا ہو۔
5    اپنے کام کو خوش دلی اور اخلاص کے ساتھ کرنے والے ہوں، بوجھ سمجھ کر یا محض ملازمت کی نیت سے نہ کریں۔
6    استاذ شادی شدہ ہوں۔
7    دعوت کی محنت سےنسبت ہو یا کسی بزرگ سے اصلاحی تعلق ہو۔
8    تجربہ کار ہوں۔ مارپیٹ کے بغیر پڑھانے کا طریقہ جانتےہوں۔
9    وضع قطع شرعی ہو۔
–    مقامی ہوںتاکہ وقت پر آنے جانے میں سہولت ہو۔
(۲ء۴)    معلم کا تقرر کیسے ہو؟
معلم کے تقررکے لیے سب سے پہلے دورکعت نمازِ حاجت پڑھ کر دعامانگیں کہ اے اللہ! ہمارے ادارےکو اچھا معلم /معلمہ نصیب فرما۔
کسی ادارے کو جان مارنے والامعلم مل جائے ،سنتوںکااہتمام کرنے والاہو،وقت کاپابند ہو، پڑھانے اورسکھانے کااسے جنون ہو،اپنے ناظم ،مہتمم،مکتب کے مقامی ذمے دار کی اطاعت کرنے والا ہوتووہ معلم اس ادارے اورمحلے کے لیے سعادت اورخوش نصیبی اور ایسے محلے کے بچے بڑے ہوکر کام والے بنتے ہیں۔
معلم کاتقررکرتے وقت استخارہ کرکے خوب سوچ سمجھ کر مشورہ کرکے سابق اداروں میں جہاں کام کیاہے وہاں کے حالات معلوم کرکے پھر تقررکریں۔بارباراستاذ کی تبدیلی بہت زیادہ نقصان دہ ہے ،جس استاذ کو رکھیں یہ سوچ کر رکھیں کہ نکالنا نہیں ہے ۔
m    مقامی ذمے داریعنی مسجدکی کمیٹی والے معلم کے تقرر کے لیے ”مکتب تعلیم القرآن الکریم“ کے سینٹر کے ذمے دار سے رابطہ قائم کریں۔
m     مقامی ذمے دار اگرکسی استاذ کاخود تقرر کرنا چاہیں توکسی عالم تجربہ کار قاری صاحب کے ذریعے استاذ کے قرآن کریم کا جائزہ لیں۔
m      مکتب میںتقررکرنے سےپہلےمعلم کو سینٹر میں تربیتی نشست کے لیے بھیجیں اوراس کے بعد ہی تقرر کریں۔
m    اگر معلم کسی وجہ سے تربیتی نشست کے لیے سینٹر میں نہ جاسکے تو سینٹر کے ذمے دار سے رابطہ کرکے مقامی معاون کواپنے مکتب میں بلاکر تربیت دینے کی ترتیب بنائیں۔
m    اگرحفظ شروع کرنا ہو تو سینٹر کے ذمے دار سے رابطہ کرکے معلم کا تقرر کریں ۔
m    معلم کے تقرر کے وقت  معیاری تنخواہ متعین کریں۔
m      سالانہ کارگردگی کی بنیاد پر معلم کی  ماہانہ تنخواہ میںاضافہ کریں۔
(۳ء۴)    معلم بار بار نہ بدلیں:
m      معلم کی تبدیلی کرنے سے حتی الامکان بچیںتاکہ بچوں کی تعلیم پربرا اثر نہ پڑے ۔
یہ بات یادرکھنے کی ہے کہ طالب علم اوراستاذ آپس میں ایک دوسرے کو پہنچانتے ہوئے بسا اوقات کم وبیش تین سے چھ ماہ لگ جاتے ہیں۔اوراب ادارے نے استاذسے معذرت کی یاتنخواہ اتنی کم رکھی کہ اس نے استعفیٰ دے دیا یارکھتے وقت صحیح طورپرحالات نہیں لیے گئے تواس سے طلبا کی تعلیم کابڑانقصان ہوگا اورجوطلبا کاوقت گزرگیاوہ واپس نہیں ہو گا۔
5      داخلے کا نظام
(۱ء۵)   داخلے کا وقت مقرر کریں:
m    کوشش کریں کہمکتب میںداخلے کے لیے ایک وقت مقرر کریں جس میں بچوں کا داخلہ لیا جائے۔
m    داخلہ کا نظام ہو سکے تو اسکول کی طرح مکتب میں بھی ایک دو ماہ پہلے سے بنایا جائے۔
(۲ء۵)   داخلے کا وقت مقرر کرنے کے فوائد:
1    وقت مقررہ پر داخلے کے نظام سے جماعت اوردرس گاہ بنانا آسان ہوجائے گی۔
2    داخلےکے نظام سے مکتب کے انتظامی امور (فیس ، یونی فارم وغیرہ ) میںآسانی ہوتی ہے۔
3    ابتداء میں تو داخلہ سال بھر لیں، اس کے لیے ایک مخلوط جماعت اورکلاس بنالیں ، پھر آہستہ آہستہ ذہن سازی کرکے داخلے کی ایک تاریخ متعین کردیںتاکہ اجتماعی تعلیم ہوسکے۔
(۳ء۵)   داخلہ دینے کی ترتیب:
m     کسی بھی بچے کو مکتب میں داخلے سے محروم نہ کیا جائے ورنہ وہ علم ِدین سے محروم ہوجائے گا۔
m    ۵؍سال سے زائد ہر عمر کے بچے کا داخلہ لیاجائے۔
m    ایسے چھوٹے بچوں کو مکتب میں داخلے نہ دیںجو اپنی ضرورت کا اظہارنہ کرسکیں۔
m    جہاں تک ہوسکے بچیوں کی تعلیم کا نظم شروع ہی سے الگ بنایا جائے۔
m    آٹھ سال سے زائد عمر کی بچیوں کو بنات (بچیوں) کے مکتب میں داخل کیا جائے اس لیے کہ بے دینی سے دین کا کام نہیں ہوسکتا۔
m    بالغان اورحفظ کے بچو ں کے داخلے کابھی نظام بنایا جائے۔
(۴ء۵)   د اخلہ فارم:
1    مکتب میں داخلے کے لیے داخلہ فارم بنایاجائے۔
2    بغیر اطلاع کے جو بچہ دو سے تین ماہ تک غیر
حاضر رہے پھر دوبارہ آئے تو نیا داخلہ کیا جائے۔
3    ہر طالب علم کا مکتب میں داخلے ، داخلہ فارم کے ذریعے کیا جائے۔
(۱ء۴ء۵)    داخلہ فارم کی اہمیت اور فائدہ:
1      داخلے کی اہمیت پیداہوگی۔
2     بچے کی پوری تفصیل مکتب کے ذمے داروں کے علم میں آئے گی ۔
3    ادارے کامعیاربنتاہے اوروالدین کوپیغام ملتاہے کہ اَلْحَمْدُلِلّٰہ   ادارہ معیاری ہے۔ ادارے سے محبت اورادارے کی عظمت والدین کے دلوںمیں بیٹھتی ہے۔
4    بچوںکاریکارڈ رکھناآسان ہوجائے گاکہ جب سے ادارہ بناہے کتنے بچوںنے داخلہ لیاتھا، کتنے بچوںنے ناظرہ قرآن کریم مکمل کیااورکتنے بچے چھوڑ کر چلے گئے،ہمارے ادارے میں کتنی کمیاںہیں کہ اتنے طلباچھوڑکر چلے گئےاس پرغورکیاجاسکے گا۔
(۲ء۴ء۵)    داخلہ فارم میں مندرجہ ذیل امور ہوں:
1    بچے کا نام، اس کے والد کا نام اورگھر کا مکمل پتہ نیزرابطہ نمبراور دستخط کا خانہ موجودہو۔
2     مکتب کا نام …….. مکمل پتہ ہو…….. داخلے کی تاریخ سنہء کے ساتھ ہو نیز ذمے داروں کے فون نمبر ہوں۔ داخلہ فارم کی پشت پر داخلے کی شرائط ہوں اور وہ شرائط سر پرست کو پڑھ کر بتائی جائیں۔
3    پڑھائی کےمختلف اوقات ہوںتاکہ بچہ سہولت کے وقت کا انتخاب کر سکے۔
4    داخلہ فارم کی ایک کاپی والدین کو بھی دی جائے تاکہ ان کے پاس بھی داخلے کی شرائط رہیں۔
5     مکتب کے بارے میں اس بات کی وضاحت کا کالم ہو کہ اس سے پہلے بچہ مکتب میں پڑھتا تھا یا نہیں اگر پڑھتاتھا توکیاپڑھتاتھا اور مکتب چھوڑنے کی وجہ کیا تھی اس سے ہمیںمکتب چھوڑنے کی وجوہا ت کا علم ہو گا۔
6    اگر بچہ کسی دوسرے مدرسے، مکتب سے پڑھ کرآئے تو سابقہ مدرسے کے نتیجۂ امتحان کے ساتھ والدین کے سامنے جائزہ لیں تاکہ اگر کمزوری ہو تو والدین کو معلوم ہوسکے کہ توجہ نہ دینے کی وجہ سے یہ یہ کمزوریاںہیںاوراس کے بعد درجے کا تعین کریں ۔
7    داخلہ فارم میںداخلہ فیس ،ماہانہ فیس کا کالم رکھا جائے۔
(۳ء۴ء۵)   داخلے کی شرائط :
1    داخلے کے وقت بچے کی عمر کم ازکم پانچ سال اورزیادہ سے زیادہ بارہ سال ہو۔
2    تربیتی نصاب حصہ ابتدائیہ پڑھنے والے بچے کے لیے پانچ سالہ نصاب ہےاورتربیتی نصاب حصہ اول سے پڑھنے والے بچے کے لیے چارسالہ نصاب ہے ۔
3    داخلے کے وقت بچے کے سرپرست کاساتھ آناضروری ہے ۔
4    داخلے کے وقت بچے کے برتھ سرٹیفیکٹ کی کاپی اور سرپرست کے شناختی کارڈ کی فوٹوکاپی ساتھ لائیں۔
5    بچہ کی آمد ورفت کی ذمے داری والدین پرہوگی۔
6    مکتب میںپڑھنے والے ہربچے کے پاس :
1    قرآن کریم         2    کتاب تربیتی نصاب          3    یونی فارم
4    آئی کارڈ         5    بیگ کاہوناضروری ہے۔
7    طالب علم کووقت کی پابندی کرائیںچھٹی سے اجتناب کروائیں، بوقت ضرورت بامرمجبوری درخواست جمع کراکررخصت لی جائے بغیراطلاع چھٹی کرنابہت نقصان دہ ہے ۔
8    مکتب کےاساتذہ اوردیگر عملے کاادب واحترام ہرطالب علم کادینی اوراخلاقی فرض ہے ۔
9    سرپرست حضرات کے لیے ضروری ہےکہ ہرمہینے ورنہ کم ازکم سال میں چارمرتبہ اپنے بچے کے استاذ سے مل کرتعلیمی نوعیت ضرور معلوم کرلیاکریں اس سے بہت فائدہ ہوگا۔
–    امتحانات میںشرکت کے لیے ۸۵ فیصدحاضری ضروری ہے ، ۸۵ فیصد سے کم حاضری کی صورت میں طالب علم امتحان میں شرکت کاحق دار نہیں ہوگا۔
q    طالب علم کاقیمتی اشیاء لے کرآنا منع ہے مثلاً موبائل ،زیورات،قیمتی گھڑی،نقدی وغیرہ۔
w    بداخلاقی،لڑائی،گالم گلوچ کی صورت میں طالب علم سے مذاکرہ ہوگابازنہ آنے کی صورت میں اخراج بھی ہوسکتا ہے ۔
e    بچے کی تعلیمات سے متعلق مدرسے کی انتظامیہ کافیصلہ حتمی ہوگا، مدرسے کی انتظامیہ طالب علم کے اخراج کاحق رکھتی ہے ۔
وضاحت:
m    مکتب میں داخلے کی شرائط پر بہت زیادہ سختی نہ کریں تاکہ کوئی بچہ تعلیم سے محروم نہ ہو۔
m    داخلہ فارم دیتے وقت سرپرست کا نام معلوم کرلیا جائے اور فون نمبر لے لیا جائے تاکہ اگرطالب علم داخلہ لینے کے بعد نہیں آئے تو سرپرست سے رابطہ کرکے وجہ معلوم کی جائے۔
m    شہر کے مکتب کی ایک جماعت میں زیادہ سے زیادہ بیس اور دیہاتوں میں زیادہ سے زیادہ پچیس بچوں کا داخلہ لیا جائے۔
(۴ء۴ء۵)  داخلہ فارم وصول کرنے کی ترتیب:
1    داخلہ فارم جمع کرتے وقت حتی الامکان بچے اور سرپرست کو ساتھ بلایا جائے ۔
2    داخلے کے وقت والدین(سرپرست) کو ترغیب دیں کہ بچہ کی تعلیمی بہتری کے لیے جب مکتب میں بلایا جائے تو مکتب میں آنے کی پوری کوشش کریںاس لیے کہ تعلیم وتربیت میںوالدین،استاذاورطالب علم تینوں کامحنت کرناضروری ہے جیسے پنکھےکی ہوا کے لیے تین پروں کا ہونا ضروری ہے ۔
m    داخلہ لینے والے طلباء کے سرپرستوں کو داخلے کی شرائط ادارے کے قواعد وضوابط پڑھ کر سنائیں اور نصاب کا مختصر تعارف کرائیں۔
3    داخلے کے وقت پابندی سے اپنے بچہ کو مکتب میں بھیجنے کی تاکید کی جائے۔
وضاحت:
m     داخلہ فارم جمع کرنے کے بعد اگر کوئی بچہ نہیں آرہا ہے تواس کے سرپرست سے رابطہ کرکے ا ن سے ملاقات کی ترتیب بنا کر مکتب میں لانے کی فکر کی جائے۔
m    اگر کسی ایک وقت میں مثلاً 8:00بجےسے15:9بجے تک کی جماعت میں بچے مکمل ہوجائیں تو نئے داخلہ لینے والے کی ترتیب 15:9 کے بعد والی جماعت میں بنائیں،اگر وہ بچہ 8:00بجے والی جماعت میں داخلہ لینا چاہتاہو اور کئی دوسرے بچے بھی اس جماعت میں مل سکتے ہیں تو مزید استاذ کا تقرر کرکے ایک جماعت اس وقت میں بڑھا دیں۔
(۵ء۵)   داخلہ فیس:
m    مکتب میںداخلے کے لیے فیس بھی رکھی جائے اور داخلہ فیس کے ذریعے بچوں کو
1 قرآن کریم        2کتاب         3یونی فارم     4 بیگ         5آئی کارڈ دیا جائے۔
m     فیس نہ دینے کی وجہ سے کسی بچہ کوتعلیم سے محروم نہ کیا جائے۔ یاتو اس طالب علم کو مکتب میں رعایت دی جائے یا اسپانسر کا بندوبست کیا جائے۔  (دیکھیے صفحہ نمبر ۵۳)
(۶ء۵)   عمر کے لحاظ سے درجہ بندی:
m    بچوںکی ذہنی سطح ایک ہوتوبچوں کو اجتماعی پڑھانے میں سہولت ہوتی ہے۔
m    عمر کے لحاظ سے درجہ بندی کرنے سے طلبا کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق ترقی کرنے کا موقع ملتا ہے ۔
m    بڑوں اور بچوں کی الگ الگ درجہ بندی کی جائےورنہ بڑے احساس کمتری میں مبتلا ہوں گے۔
m    اگر ایک کلاس میں بچے اور بچیاں زیادہ تعداد میں ہوںتو دونوں کی الگ الگ درجہ بندی کی جائے۔
6    مکتب کی بنیادی ضروریات
’’مکتب میں قرآن کریم، کتابوں، بیگ ، بورڈ، تپائی ،نورانی قاعدہ چارٹ، وغیرہ کا انتظام بھی ہو تاکہ مکتب کی ضروریات پوری ہوسکیں۔‘‘
(۱ء ۶)   قرآن کریم:
1    قرآن کریم اور عَمَّ پاروں کا ذخیرہ رکھیں ، عَمَّ پارہ پڑھنے والے بچوں کو عَمَّ پارہ دیا جائے اور جب  عَمَّ پارہ مکمل کرلیں تو قرآن کریم دیا جائے۔
(۲ء ۶)   کتابیں:
1    ہر طالب علم کے پاس کتاب ہونا ضروری ہے تاکہ بچے کو پڑھنے اور یاد کرنے میں آسانی ہو۔
2    ہر طالب علم کے پاس کتاب ہونے سے مکتب کا تعلیمی ما حول اچھا بنتا ہے۔
3    ہر طالب علم کے پاس کتاب ہونی چاہیے تاکہ اساتذہ اوروالدین اسباق ،نماز کی ڈائری اور حاضری چارٹ وغیرہ پر دستخط کرسکیں۔
4      مکتب میں ہر وقت کچھ زائدکتابیں موجود ہوں تاکہ بوقت ضرورت بچوں کو کتاب دی جاسکے اوربچوں کا تعلیمی نقصان نہ ہو۔
(۳ء ۶)   بیگ:
m    ہر بچہ کے پاس کتاب رکھنے کے لیے ایک بیگ ہو،جس کے پیچھے بنے ہوئے خانہ میںشناختی کارڈ (i.card)ہو۔
m    بیگ میں قرآن کریم اور کتاب رکھنے سے ان کی حفاظت ہوتی ہے۔
(۴ء ۶)   بورڈ:
m     مدرسے ،اسکول اورہرتعلیمی ادارے میں بورڈ کااستعمال ہوتاہے،بورڈ کے ذریعے اجتماعی تعلیم میں مددملتی ہے لہٰذامکتب میں بھی بورڈ کااستعمال کریں۔
(۱ء۴ء ۶)    بورڈ پر پڑھانے کے فوائد:
1       بچوں کے لیے سمجھنا اور استاذ کو سمجھانا آسان ہوجاتا ہے۔
2    کمزور طلبا بھی سبق سمجھ جاتے ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عامر بن عبد اللہ خزاعی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ کمزور طلبا کے لیے تختی (بورڈ) پر لکھیں۔     (خیر القرون کی درس گاہیں:۳۳۹)
3     بچوں کی توجہ ایک جگہ رہتی ہے۔
4     بورڈپر پڑھانے سے دماغ میںپڑھائی ہوئی باتیں نقش اور محفوظ کرنے میں مدد ملتی ہے۔
5     بورڈ پر لکھ کر پڑھانے سے بچوں کو لکھنے کا طریقہ بھی معلوم ہوتا ہے۔
6    بورڈ پرپڑھانے کااہم فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے جو وحی نازل فرمائی اس میں اِقْرَاْ  یعنی پڑھنے کاحکم دیااوراس کے بعدجوسکھانے کاحکم دیاوہ اَلَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِِ میں قلم کی نعمت کاذکر فرمایا۔جس سے معلوم ہواکہ کسی چیز کے سیکھنے اورسکھانے میں قلم بہت ہی مفید اوراہم ذریعہ ہے۔ بورڈ استعمال کرنے سے اس آیت مبارکہ پرعمل بھی ہوجائے گا۔
7    بچوں میں خود اعتمادی بڑھ جاتی ہے اور جھجھک ختم ہوجاتی ہے۔
8    تجربہ شاہد ہے کہ جن بچوں کو لکھ کر پڑھایا گیا یا کاپی پر بچے سے خود لکھوایا گیا تو کمزور سے کمزور بچہ بھی صحیح لکھنا پڑھنا سیکھ گیا۔ (مزید دیکھیے صفحہ نمبر۱۳۴)
(۵ء ۶)   نورانی قاعدہ چارٹ:
m     اِنْ شَآءَ اللّٰہُ بڑے سائز میں نورانی قاعدہ چارٹ تیار کیا جارہاہے اس کو پڑھانے کے لیے استعمال کریںتا کہ زیادہ فائدہ ہو۔
(۶ء ۶)    تپائی :
(۱ء۶ء ۶)      تپائی کے فوائد:
m    تپائی کی وجہ سے مکتب کا ماحول اچھامعلوم ہوتاہے۔
m    تپائی کے ذریعے بچوں کو ترتیب سے بٹھانے میں سہولت ہوتی ہے۔
m     کتابوں کو تپائی پر رکھنے سے کتابوں کی بے ادبی نہیں ہوتی اور کتاب کی عظمت دل میں آتی ہے۔
m     استاذآسانی سے ہربچے کی کتاب پر نظررکھ سکتاہے ۔
m    کتاب تپائی پر رکھ کر پڑھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
m    تپائی کی ترتیب سے خود بچہ میں سلیقہ مندی اور تہذیب آتی ہے۔
(۲ء۶ء ۶)     تپائی کیسی ہو اور تپائی درس گاہ میں لگانے کا طریقہ:
m    تپائی ہلکی بنوائیں تاکہ بچے آسانی سے اٹھا کر رکھ سکیں۔
m    استاذ اپنے سامنے تپائی رکھیں اور بچوں کے سامنے بھی تپائی رکھیںاور ترتیب سے بٹھائیں ۔
m    استاذ تپائی رکھ کر بچوں کواس طرح بٹھائیں کہ بچے استاذ کے قریب رہیں تاکہ سبق سننے میں آسانی ہو۔
7    مکتب کا ماحول
’’مکتب میں یونی فارم، صفائی اور دیگر سہولیات کا انتظام ہونا چاہیے تاکہ مکتب کا ماحول بہترین بنے۔ ‘‘
(۱ء۷)    یونی فارم :
(۱ء۱ء۷)    یونی فارم کے فوائد:
1     اچھاتعلیمی ماحول بنتاہے ۔
2    مکتب اور دینی تعلیم کی دلوں میں اہمیت پیدا ہوتی ہے۔
3     آنے والے مہمانوںپراچھا اثرپڑتا ہے۔
4     امیراورغریب بچوں میں امتیازختم ہوتاہے۔
5     بچہ احساس کمتری کا شکار نہیں ہوتا۔
6     اسلامی لباس کی عظمت پیدا ہوتی ہے اور بچوں میں اسلامی لباس پہننے کی عادت بنتی ہے۔
7     علاقہ میں اسلامی لباس کا ماحول بنتا ہے۔
8    بچہ نفسیاتی طورپرپڑھنے کی نیت سے تیار ہوکر آتا ہے۔
9     بچہ مکتب کی تشہیر کرتا ہے۔جس کی بناء پر لوگوں میں بچوں کو مکتب بھیجنے کا جذبہ بنتا ہے۔
(۲ء۱ء۷)     یونی فارم کیسا ہو؟
1     یونی فارم کا انتخاب شریعت کی حدود میں ہی کیا جائے۔
2     بچو ں کے لیے سنت کے موافق کرتاشلواراورٹوپی یونی فارم ہو۔
3    نو (۹)سال سے چھو ٹی بچیوں کے لیے بھی شلوار،قمیص اور اسکارف(نیم برقعہ)یونی فارم ہو۔
4    بچیوں کا یونی فارم ایک رنگ کا ہو تاکہ جدید فیشن سے محفوظ رہیں۔
5    جن بچیوں کی عمر دس سال ہو جائے ان کوبرقعہ اورنقاب پہننے کی تاکید کی جائے،برقعہ نقاب کے فضائل سنائےجائیں۔
(۳ء۱ء۷)   یونی فارم کو کیسے رائج کیا جائے؟
m    غریب والدین کو بچوں کا یونی فارم بنانے کے لیے تیار کیا جائے،مثلاً عید وغیرہ میں جو کپڑے بنائیں تو بہتر یہ ہے کہ کرتا،شلوار یونی فارم کے رنگ کا ہو، تاکہ الگ سے یونی فارم کا بوجھ نہ پڑے۔
m     غریب بچوں کے یونی فارم کے لیے اہل خیرحضرات کو آمادہ کیا جائے۔
وضاحت:
m    مکتب میں کچھ یونی فارم(ہر سائز کے) زائد بھی رکھیں تاکہ ضرورت کے وقت فورًابچے کو دے سکیں۔
m    یونی فارم اور بیگ آپ” ادارئہ مکتب تعلیم القرآن الکریم “سے آرڈر دے کر قیمتاًمنگواسکتے ہیں۔
ہدایت برائے استاذ :
1     استاذ بچوں کو شلوار ٹخنوں سے اونچا رکھنے کی ،بچیوں کو ٹخنوں سےشلوار نیچے رکھنے کی تاکید کریںاور نگرانی بھی کریں اورسنت کے مطابق لباس پہننے، زندگی گزارنے کی ترغیب دیں۔
2     بچوں کو  یونی فارم پابندی سے اور صاف ستھرا پہن کر آنے کی تاکید کی جائے،اگرہر بچے کو دو یونی فارم دیے جائیں تو صفائی میں آسانی ہوتی ہے ۔
(۲ء۷)   صفائی:
m    اسلام میںصفائی کی بہت تاکید کی گئی ہے لہٰذا مکتب میں صفائی کا خوب اہتمام کیا جائے۔
m    حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’نَظِّفُوْا اَفْنِیَتَکُمْ وَلَاتَشَبَّھُوْابِالْیَھُوْدِ ‘‘
ترجمہ:’’ تم اپنے صحن کو صاف ستھرا رکھواور یہودیوں کی مشابہت مت اختیار کرو۔‘‘
(جامع الترمذی، الادب ، باب ماجاء فی النظافۃ، الرقم:۲۷۹۹)
لہٰذا مکتب کے باہر بھی صفائی کا اہتما م کیاجائے۔
m     مکتب میں صفائی کے ماحول سے بچوں کے اندرصفائی کی عادت پیدا ہوگی ۔
m     مکتب میں صفائی کے ماحول سے والدین متاثر ہوتے ہیںاور رغبت سے بچوں کو مکتب بھیجتے ہیں۔
m    استاذ مکتب میں آنے والے طلبا و طالبات کو صفائی کے متعلق ترغیب دیتےرہیں اور خود بھی دھیان رکھیں۔خاص طور سے قرآن کریم رکھنے کی الماری کو صاف ستھرا رکھیں، اس میں گرد وغبار نہ ہواوراس میں قرآن کریم ترتیب سے رکھیں۔
m    طلبا کو ترغیب دیں کہ قرآن کریم جزدان میں رکھیں اور جزدان صاف ہو۔
m    استاذ مکتب میں آنے والے طلبا کے یونی فارم کے ساتھ ساتھ دانت، ناخن،بال وغیرہ کی صفائی پر دھیان دیں۔
m    مکتب میں کچرا دان(Dust Bin )کا انتظام کیا جائے اور بچوں کی عادت ڈالی جائے کہ کچرا اس میں پھینکیں۔
(۳ء۷)     دیگر سہولیات کا انتظام:
m    اگر درس گاہ بڑی ہو اور اس میں مختلف جماعتیں ہوں تو درمیان میں آڑلگادیں تاکہ طلباء کی آواز آپس میں نہ ٹکرائے اور کم ازکم پردے کا انتظام کیا جائے تاکہ بچوں کی توجہ نہ بٹے۔
m    دیواروں پر مناسب رنگ وروغن کیاجائے یا پھر کم از کم سفید چونا ہی کیا جائے۔
m    مکتب میں روشنی اور ہوا کا مناسب انتظام ہوتو پڑھائی میں طبیعت خوب لگتی ہے ۔
m     مکتب میں حسب استطاعت معقول روشنی کا نظم ہو جہاں لائٹ نہ ہو وہاں گیس بتی وغیرہ کا انتظام کیا جائے۔
m     مکتب میں بچوں کے لیے پنکھا ہو۔
m    مکتب میں بیٹھنے کے لیے چٹائی یاقالین کا انتظام ہو۔
m       اگر ضرورت ہو اور استعداد والا علاقہ ہو تو اے سی ’ AC‘کاـانتظام کیا جائے۔
m    دیگر ضروریات مثلاً پینے کا پانی، وضو خانہ ،طہارت خانہ وغیرہ کا صاف ستھرا انتظام بہت ضروری ہے۔
m    مکتب میں جوتے چپل سلیقے سے رکھنے کا نظم ہو۔اور اس بارے میں استاذ بچوں کو سمجھائیں۔
m    مکتب میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ طہارت خانہ ہو۔
m    طہارت خانے میں چپل خاص کرلیں اور وہی چپل استعمال کیےجائیں تاکہ صفائی رہے۔
8     تعلیمی اوقات
’’تعلیمی اوقات صبح ، دوپہر اور شام تک پھیلادیں تاکہ بچے اپنی سہولت کے مطابق مکتب میں آسکیں۔‘‘
(۱ء۸)    بچوں اور بچیوں کے لیے تعلیم کے اوقات:
m    بچوں کی سہولت کو سامنے رکھ کرداخلے کا وقت اورتعلیم کاوقت صبح دوپہر اور شام میں مقرر کرنا چاہیے ۔
m    عموماً بچوں کے پاس اسکول، ٹیوشن، کھیل کود کی مصروفیت کی وجہ سے وقت کی کمی ہے۔
m    اگر بچہ ان مصروفیت کے ساتھ کم از کم سوا گھنٹہ بھی مکتب میں دینی تعلیم کے لیے فارغ کر رہا ہے تو یہ ہمارے لیے قیمتی ہے۔
m    طلبا کو تعلیمی اوقات میں سہولت دی جائے، تو خودبہ خود طلبا کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔
m    جو بچے صبح اسکول جاتے ہیں ان کو ظہر کے بعد سوا گھنٹہ کے لیے بلایا جائے۔
m    جو بچے دوپہر میںاسکول جاتے ہیں ان کو صبح کے وقت میں سوا گھنٹے کے لیے بلایا جائے۔
m    شہروں میں تعلیمی اوقات صبح ۸ ؍ بجے سے ۱۲؍ بجے تک، ظہر سے عصر تک، عصر تا مغرب اور مغرب تا عشاء سواسوا گھنٹے کی الگ الگ جماعتیں بنائی جائیں ۔
m    دیہاتوں میں صبح سوا سوا گھنٹے کی تین جماعتیں ہوں اوردوپہر میں دو جماعتیں ہوں۔
m    دیہات /گاؤں میں مقامی ذمے داروں سے مشورہ کرکے سوا گھنٹے سے زائد وقت بھی رکھ سکتے ہیں۔
m     دیہات/ گاؤںمیں ضرورت کے مطابق کم اور زیادہ جماعتیں بناسکتے ہیں۔
m    جو بچے اسکول نہیں جاتے ان کے لیے زیادہ وقت پڑھانے کی ترتیب بنانی چاہیے۔
(۲ء۸)    رمضان المبارک میں تعلیم کے اوقات:
m    ماہ رمضان میں وقت میں سہولت کرنی چاہیے۔
m     ماہ ِرمضان میںصرف صبح اور ظہر تا عصر مکاتب ہوں توبہتر ہے۔
m    ماہ رمضان میں عصر کےبعد اور مغرب کے بعد پڑھنے والے بچوں کو ان کی سہولت کے اعتبار سےصبح یادوپہرمیں بلائیں۔
m    اگر جماعتیں زیادہ ہوں مثلاً ۵ یا ۶جماعتیں ہو ںتو دوجماعتوں(Batch)کوایک ساتھ سواگھنٹے میں پڑھالیں۔
(۳ء۸)   چھٹیوں کی ترتیب:
m    تعلیم اور چھٹی کا نظام اگر اسکول کے ساتھ ہو تو بہتر ہے تاکہ بچوںکی مکمل دن چھٹی رہے ۔
m    ہفتہ واری چھٹی اتوار کے دن ہو ا گر یہ ممکن نہ ہو تو جمعے کے دن رکھی جائے۔
9    بنات کے مکاتب قائم فرمائیں
’’بچیوںکے لیے بنات کے مکاتب قائم کریں اور اس کا پورا نظام شریعت کے دائرے میںرہ کر مستورات کے ذریعے چلائیں۔‘‘
(۱ء۹)   بنات کے مکاتب کسے کہتے ہیں اور کیسے چلائیں؟
m    وہ جگہ جہاں بنات کو معلمات کے ذریعے قرآن کریم کے ساتھ ساتھ دین کی اہم اور ضروری باتیںشریعت کی حدود میں رہ کر سکھائی جائیںاور ان کی دینی تربیت کی جائے۔
m    کوئی بھی دینی لگن اور فکر رکھنے والی خاتون مکتب کا نظام چلا سکتی ہے اورمکتب سے باہر کے انتظامی امور میں اپنے محرم سے مدد لے سکتی ہے۔
m    بنات کے مکاتب کی نگرانی مستورات ہی کے ذریعے کرائی جائے۔
m    بنات کے مکاتب میں پڑھانے والی معلمہ کی تربیتی نشست مستورات ہی کے ذریعے کرائی جائے۔اگر یہ ممکن نہ ہو تو مردوں کے ذریعے تربیتی نشست پورے پردے کے اہتمام کےساتھ کرائی جائے۔
(۲ء۹)   بنات کے مکاتب کی اہمیت و ضرورت:
1    عورتوں کی موجودہ دینی صورت حال نہایت قابل توجہ ہے۔اکثریت کو فرض عین کا علم نہیں ہے۔
2    عورتوں کا علم دین سیکھنا بہت ضروری ہے۔کیوںکہ دین دار عورتیں دین کو پھیلانے میں مدد گار ہوتی ہیںاور خصوصاََ وہ اپنے بچوں کو بھی اہتمام کے ساتھ مکتب میں بھیجتی ہیں۔

(۱ء۲ء۹)    تعلیم کی اہمیت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’رَجُلٌ کَانَتْ عِنْدَہٗ أَمَۃٌ فَاَدَّبَھَا فَاَحْسَنَ تَاْدِیْبَھَا وَعَلَّمَہَا فَاَحْسَنَ تَعْلِیْمَہَا ثُمَّ اَعْتَقَہَا فَتَزَوَّجَہَا فَلَہٗ اَجْرَانِ۔‘‘
(صحیح البخاری، العلم، باب تعلیم الرجل امتہ واھلہ، الرقم:  ۹۷)
ترجمہ: ’’وہ شخص جس کے پاس کوئی باندی ہو، اسے اس نے ادب سکھایا اور خوب اچھی طرح سکھایا، اسے تعلیم دی اور اچھی تعلیم دی پھر اسے آزاد کیا اور پھر اس کے ساتھ نکاح کرلیا اس کے لیے دو اجر ہیں۔‘‘
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’صحیح بخاری‘‘ میں اس حدیث پر یہ باب باندھا ہے:
’’بَابُ تَعْلِیْمِ الرَّجُلِ اَمَتَہٗ وَاَھْلَہٗ۔‘‘
ترجمہ: ’’مرد کا اپنی باندی اوراپنے گھر والوں کو دین کی تعلیم دینے کا بیان۔‘‘
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’مُطَابَقَۃُ الْحَدِیْثِ لِلتَّرْجَمَۃِ فِی الْاَمَۃِ بِالنَّصِّ وَفِی الْاَھْلِ بِالْقِیَاسِ، اِذِ الْاِعْتِنَاءُ بِالْاَھْلِ الْحَرَائِرِ فِیْ تَعْلِیْمِ فَرَائِضِ اللّٰہِ وَسُنَنِ رَسُوْلِہٖ اٰکَدُ مِنَ الْاِعْتِنَاءِ بِالْاٰمَاءِ۔ ‘‘          (فتح الباری:۱/۲۵۰)
ترجمہ: ’’حدیث کی باب سے مناسبت باندی سے متعلق واضح طور پر ثابت ہے اور گھروالوں سے متعلق قیاساً ثابت ہے، اس لیے کہ گھروالوں کو اللہ تعالیٰ کے احکامات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنتیں سکھانے کی زیادہ اہمیت و تاکید ہے بنسبت باندیوں کے کیوں کہ گھر والے تو آزاد ہیں۔ ‘‘
(۳ء۹)   بنات کے مکاتب کے فوائد:
1    عورتوں کو دیگر گھریلو ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ علم دین سکھانے کا مکتب بہت آسان ذریعہ ہے۔
2    بچے کا پہلامکتب ماں کی گود ہے اگر ماں دین دار ہوگی تو بچے کی تربیت پر اس کا اثر پڑے گا۔
3    مرد پڑھا فرد پڑھا، خاتون پڑھی خاندان پڑھا، عورت میںدین، خاندان میں دین آنے کا سبب ہے۔
(۴ء۹)   بنات کے مکاتب کی جگہیں:
m    بچوں کے وہ مکاتب جو دوپہر کے اوقات میں بند رہتے ہیں ۱۱؍سے ۲؍تک اس وقت میں بھی بنات کا مکتب چلاسکتے ہیں۔
m    کرائے پر الگ کمرہ یا ذاتی مکان میں جس وقت میں مرد حضرات نہ ہوتے ہوں،پردے کا مکمل انتظام ہو، اس میں بنات کا مکتب شروع کرسکتے ہیں۔
(۵ء۹)   معلمہ کی صفات:
1    عالمہ ، حافظہ جو قرآن کریم صحیح تجوید کے ساتھ پڑھ سکتی ہو۔
2    پڑھانے کاتجربہ ہو۔
3    دین دارہو۔
4    عالمہ یا حافظہ نہ ہوتو جس خاتون کا قرآن کریم صحیح ہووہ پڑھاسکتی ہیں۔
5     اردو یا مقامی زبان پڑھنا لکھنا جانتی ہو۔
(۶ء۹)   بنات کے مکتب کے تعلیمی اوقات:
m    بنات کی تعلیم کے لیے صبح اور دوپہر کے اوقات میں ترتیب بنائی جائے۔ بڑی عمر کی مستورات کے لیے دوپہر کے اوقات میں ترتیب بنائی جائے اس لیے کہ ان اوقات میں عموماً وہ گھریلوذمے داریوں سے فارغ ہوتی ہیں۔
–    سرپرستوں سے ملاقات
’’ سرپرست کی ملاقات ( والدین میٹنگ)سے انتظامیہ اور سرپرستو ں کا رابطہ مضبوط ہوتا ہے اورسرپرستوں سے تعلیمی و تربیتی تعاون ملتا ہے۔‘‘
’’ہر مہینے میں ایک مرتبہ ورنہ کم از کم سال میں چار مرتبہ سرپرستوں سے ملاقات ہو۔ ‘‘
(۱ء۱۰)     سرپرستوں سے ملاقات کی اہمیت اور فوائد:
1    تعلیمی ترقی کے لیے سرپرست، ذمے دار اور معلم تینوںکا جوڑ ضروری ہے۔
2    سرپرست کی ملاقات سے مکتب کی تعلیم عمدہ کرنے میں مدد ملتی ہے۔
3    سرپرستوں کی ملاقات سے استاذ فکرمندہوتاہے۔
4     بچوں کی غیر حاضری پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
5     سرپرست سے متعلق مکتب کا نظام قابو میں آتا ہے مثلاً: گھرمیں دینی تربیت، مکتب کے علاوہ جو وقت ہے اس کی حفاظت، فیس، یونی فارم وغیرہ ۔
6     بچوں کی خوبیاں اور کمزوریاں والدین کے سامنے آتی ہیںاور بچے کی تعلیم وتربیت میں مدد ملتی ہے۔
7     بچوں اوروالدین کے اندر بھی مکتب کی اہمیت اور فکر پیدا ہوتی ہے۔
(۲ء۱۰)    والدین /سرپرستوں سے ملاقات کی جگہ اور تعداد:
1    سرپرستوں سے ملاقاتمکتب میں رکھی جائے اور مندرجہ ذیل طریقوں سے والدین کو پیشگی اطلاع دی جائے:
1     دعوت نامہ         2     فون         3    ایس ایم ایس
2         ملاقات سال میں کم از کم چار مرتبہ اس طرح ہوکہ ،پنج ماہی امتحان سے پہلے اور پنج ماہی امتحان کے بعد پھر سالانہ امتحان سے پہلے اور سالانہ امتحان کے بعد ہو۔
3    ہر ماہ انفرادی ملاقات کی بھی ترتیب بنائی جائے۔
(۳ء۱۰)   سرپرستوں سے ملاقات کے امور:
1    والدین سے ملاقات کے امور اساتذہ اورناظم مشورہ سے آپس میں پہلے طے کریں مثلاً:
1   ترغیبی بات        2   بچوں کی حاضری    3   تربیت
4   علم پر عمل        5   یونی فارم         6   فیس کے قوانین کی رعایت وغیرہ)۔
2       مردوں کے ساتھ مستورات کا بھی پردے کے ساتھ نظم بنایا جائے ۔
3    ترغیبی بات کریں۔
4     تعلیم اور تربیت اور نظام کے متعلق سمجھایا جائے۔
5     بچوں کا بھی مختصرپروگرام پیش کیا جائے۔
6       والدین کی حوصلہ افزائی کریں کہ آپ کا اپنے بچوں کو قرآن کریم اور دین کی بنیادی
باتیں سیکھنے کے لیے بھیجنا یقیناً قابل تعریف ہے اور آپ ہماری طرف سے مبارک باد
کے مستحق ہیں۔
7    والدین کی رائے اور تاثرات تحریری طور پر لیے جائیںکہ مکتب سے کیا فائدہ ہورہا ہے؟
8    اجتماعی ملاقات میں اولاد سے متعلق والدین کی ذمے داریاں بتائی جائیں۔
(۴ء۱۰)   اولاد سے متعلق والدین کی ذمے داریاں:
1    دنیا کا کوئی بھی تعلیم وتربیت کا ادارہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک کہ بچوں کے سرپرست (والدین) ساتھ نہ دیں کیوں کہ بچوں کا اکثر وقت سرپرستوں کے پاس گزرتا ہے لہٰذا سب سے بڑی ذمے داری سرپرست حضرات کی ہے کہ بچوں کی تعلیم وتربیت کی نگرانی وہ خود کریں۔
2    انسان کی طبیعت پر سب سے زیادہ ماحول کااثر ہوتا ہے۔ اس لیے سرپرست حضرات کو چاہیے کہ اپنے گھر کا ماحول اچھا بنائیں۔
3    بچہ سب سے زیادہ اپنی ماں سے مانوس ہوتا ہے اور آٹھ، نو سال کی عمر جو تربیت کا اصل وقت ہے اس زمانے میں اکثر وقت اپنی ماں کے پاس گزارتا ہے۔
4    ماں باپ کو چاہیے کہ ہر نماز کے بعد، تہجد کےوقت، قرآن کریم کی تلاوت کے بعد ، اولاد کے لیے دعا مانگیں ،والدین کی دعائیں بچوں کے حق میں بہت جلد قبول ہوتی ہیں۔
خاص طورپریہ دوقرآنی دعائیں خوب اہتمام سے مانگیں:
’’رَبَّنَاھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا۔‘‘            (الفرقان:۷۴)
ترجمہ:’’ہمارے پروردگار!ہمیںاپنی بیوی بچوںسےآنکھوںکی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا سربراہ بنا۔‘‘
’’رَبِّ اَوْزِعْنِیْۤ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْۚؕ  اِنِّیْ  تُبْتُ اِلَیْكَ وَاِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ۔‘‘                    (الاحقاف:۱۵)
ترجمہ:’’یارب!مجھے توفیق دیجیے کہ میں آپ کی اس نعمت کاشکراداکروں جوآپ نے مجھے اور میرے ماں باپ کوعطافرمائی، اورایسے نیک عمل کروں جن سے آپ راضی ہوجائیں، اورمیرے لیے میری اولاد کو بھی صلاحیت دے دیجیے۔میں آپ کے حضورتوبہ کرتاہوں، اورمیں فرماں برداروں میں شامل ہوں۔‘‘
یہ دعا نفل نماز میں التحیات اور درود شریف کے بعد سلام سے پہلے تین مرتبہ پڑھنے کا معمول بنالیںاِنْ شَآءَ اللّٰہُ اولاد کی اصلاح ہوگی۔
5    بچوں کے ساتھ نرمی اور شفقت کا معاملہ کریں کیوں کہ بہت زیادہ ڈانٹ ڈپٹ کرنےسے بچےپر منفی اثرات پڑتے ہیں جس کی وجہ سے تعلیم وتربیت سے محروم ہونے کا اندیشہ ہے۔
6    نیک کام میں بچوں کی معاونت کریں اور بچے کے لیے نیک بننے کے اسباب مہیا کریں۔
7    تمام لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان مساوات اور برابری کا معاملہ کریں ان میں کسی طرح کا فرق نہ کریں۔
8    بچوں کو موقع محل کی دعائیں اور ہر عمل کا سنت طریقہ سکھائیں۔
9    جب بچہ بولنا سیکھے تو سب سے پہلے اللہ کہنا سکھائیں اور اس کو کلمہ طیبہ یاد کرائیں۔
–    ماں باپ اپنے بچوں کو نماز سکھائیں اور جب بچہ سات سال کا ہوجائے تو نماز کا حکم کریں اور جب دس سال کا ہوجائے تو نماز نہ پڑھنے پر ماریں۔ اس طرح بلوغت سے بہت پہلے بچوں کو روزہ رکھنے کا عادی بنائیں اسی طرح زکوٰۃ دینے کی تربیت دیں ۔ اگر وسعت ہو تو حج وعمرہ بھی کرائیں۔
q    والدین کو ترغیب دیںکہ گناہ سے بچنے کی کوشش کریں، اورگناہ کے آلات سے گھر کو پاک کریں ۔ خصوصاً موبائل کے استعمال پر نگرانی رکھیں، بچیوں کے موبائل پر نامحرم لڑکوں کے میسج معاشرے کو کافی نقصان پہنچاتے ہیں۔ آج کل اہل باطل ایسےGame بناتے ہیں جو   بے حیائی اور والدین کی ناقدری سکھاتے ہیں ۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو صحیح استعمال بتاتے رہیں اور غلط استعمال کے نقصان سمجھاتے رہیں۔
w    بچوں سے روزانہ سبق سنیں اور ہر مہینے مکمل سبق سن کر” دستخط سرپرست “کے خانے میں دستخط کریں۔
e    کتاب کے آخر میں نماز کی ڈائری موجود ہے روزانہ اہتمام سے اس کو پُر فرمالیں ۔ تھوڑی سی یہ محنت اِنْ شَآءَ اللّٰہُ  آپ کے بچے کو نمازی بنانےمیں معین ومدد گار ہوگی۔
r    لڑکے ، لڑکیوں کی عمر دس سال ہوجائے تو ان کے بستر الگ کردیں۔
t    بچوں کے سامنے انبیاء علیہم السلام ، صحابہ وصحابیات رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کے واقعات سناکر ایسی تربیت کریں کہ وہ دین میں پختہ ہوجائیں۔
y    سچے واقعات بیان کریں کیوں کہ بچے واقعات سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔
u    والد صاحب ”مثالی باپ “اوروالدہ صاحبہ” مثالی ماں “کامطالعہ کریں۔
(۵ء۱۰)  ایک ضروری گزارش:
اہتمام سے اپنے بچوں کو مکتب میں بھیجیں، وقت کی پابندی ہو اور چھٹی نہ ہو۔
دنیا میںوہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو پابندی کرتے ہیں، وقت پر پہنچتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے بڑے کام لیتے ہیں۔
(۱ء۵ء۱۰)ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وقت کی پابندی:
٭    ایک مرتبہ مکہ والوں نے خانہ کعبہ نئے سرے سے تعمیر کرنے کا ارادہ کیا۔
٭    خانہ کعبہ کی تعمیر کو ہر شخص اپنی سعادت سمجھتا تھا۔ چناںچہ سب نے مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر میں حصہ لیا، سارے کام خوش اسلوبی سے انجام پاگئے، لیکن جب حجر اسود کوخانہ کعبہ میں لگانے کا وقت آیا تو سخت اختلاف پیدا ہوا۔
٭    حجر اسود ایک جنتی پتھر ہے جو خانہ کعبہ کی دیوار میں لگا ہوا ہے۔
٭    اسلام سے پہلے بھی مکہ والے حجر اسود کی تعظیم کیا کرتے تھے، اس لیے ہر قبیلے اور ہر شخص کی خواہش تھی کہ وہ اس مقدس پتھر کو لگانے کی سعادت حاصل کرے۔
٭    یہ اختلاف اتنا بڑھ گیا کہ لڑائی کی نوبت آگئی۔ قریب تھا کہ تلواریں چل جاتیں، لیکن قوم کے کچھ سمجھ دار لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ’’جو شخص کل صبح سب سے پہلے مسجد حرام میں داخل ہو گا وہ اس جھگڑے کا فیصلہ کرے گا۔‘‘
٭    اللہ تعالیٰ کی قدرت کہ اگلے دن سب سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام میں داخل ہوئے۔
٭    آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر سب بول اٹھے ’’صادق آگئے، امین آگئے ہم ان کے فیصلے پر راضی رہیں گے۔‘‘
٭    اس موقعے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عجیب فیصلہ یہ فرمایا کہ آپ صلی اﷲعلیہ وسلم نے  حجر اسود کو ایک چادر پر رکھ دیا اور پھر فرمایا:
٭     ’’ہر قبیلے کا ایک آدمی چادر کا ایک کو نہ پکڑلے۔‘‘
٭    سب نے اس فیصلے کو بہت پسند کیا۔ چناںچہ اسی طرح کیا گیا۔ وہ لوگ اس چادر کو اٹھا کر  اس مقام تک لے آئے جہاں ’’حجر اسود‘‘ لگانا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنےدست مبارک سے ’’حجر اسود‘‘ کو اس جگہ لگا دیا۔
٭     اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حُسنِ تدبیر سے اور صبح جلدی آنے سے آپس کی جنگ کا خطرہ ٹل گیا۔
(۶ء۱۰)   انفرادی ملاقات کے امور:
1     والدین کو بچوںکی مکمل تعلیمی اور اخلاقی کیفیت مثبت انداز میں بتائی جائے ۔
2    بچہ جتنی باتیں مکتب میںپڑھ رہا ہےوالدین کو وہ بتائی جائیں کہ آپ کا بچہ قرآن کریم ،حدیث ومسنون دعائیں،ایمانیات،عبادات، اخلاق وآداب، عربی و اردو پڑھ رہا ہے۔ مَاشَآءَ اللّٰہُ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام میں سے ۷۰ نام بچے کو یاد ہیں، تھوڑی آپ کی محنت اور فکر سے مزید ترقی ہوگی۔
3     اس بات کی ترغیب دیں کہ بچوں سے روزانہ سبق سنیں اور ہرمہینے بچوں سے مکمل سبق سن کر سبق کے ختم پر دستخط سرپرست کے خانے میںدستخط فرمائیں۔
4    مکمل کورس تک مکتب میں بچے کو پابندی سے بھیجنے کی تشکیل کی جائے۔
5     جو طلبا مدارس میں پڑھنا چاہتے ہیں ان کی رہنمائی کی جائے۔
6    بچے کی حفظ کی استعداد معلوم ہوتو بچے کو مکتب میں حافظ بنانے کی تشکیل کی جائے۔
7      والدین کو بالغان کورس میں داخلے کی ترغیب دی جائے۔
8    والد کو مستورات کی تعلیم کے لیے فکر مند کرکےبچیوں اورگھر کی بڑی عورتوںکو بنات کے مکتب میں بھیجنے کی ترغیب دی جائے۔
9     بہت کمزور بچہ(جو فیل ہے)اس کے بارے میںحکمت سے بات کی جائے کہ تھوڑی کمزوری ہے آپ کا بچہ اسی درجہ میں اور پڑھ لے گا تو فائدہ ہوگا۔
0-    یہ بھی بتادیں کہ ہمارا مکتب نفع(مال) کمانے کے لیے نہیں ہے بل کہ یہ مسلمان بچوں کو قرآن کریم کلمے، نماز کی فکر اور اپنی ذمے داریوں کو اداکرنے کے لیے ہے۔
q    فیس
’’فیس کا نظام بنائیں ،فیس کے نظام سے معلم کو معیاری تنخواہ دینے میں سہولت ہوگی اور والدین کو نیک کام میںشریک ہونے کی دعوت ہے کہ اس تعلیمی ادارے میں آپ کے بچے پر خرچ ہورہا ہے اس میں آپ شریک ہو جائیں تو آپ کو بھی ثواب ملے گا۔‘‘
(۱ء۱۱)     فیس کی اہمیت اور فوائد:
m    طالب ِعلم کی جان اور مال لگے تاکہ علم دین کی اہمیت پیدا ہو۔
m    فیس کے ذریعے بچوں کی غیرحاضری کا مسئلہ قابو میں آتاہے۔
m    مکتب میں فیس کے نظام سے طلبا ،والدین اور اساتذہ فکر مند ہوتے ہیں۔
m    مکتب میں فیس کے ذریعے مالیات کے نظام میں معاونت ہوتی ہے اور مکتب خود کفیل ہوتا ہے ۔
m    فیس دینے کے لیے والدین کوترغیب دیتے ہوئے ذہن سازی کی جائے۔
m    جب ہم اچھی تعلیم دیں گے اوربچوں کو مکتب سے فائدہ ہوگاتووالدین ضرورفیس اداکریں گے۔
(۲ء۱۱)   فیس کی ترتیب:
m    فیس علاقے کے اعتبارسے مکتب کے اِخراجات کو سامنے رکھ کر مشورہ کرکے طے کی جائے۔
m    فیس طے کرتےوقت یہ بات سامنے رہے کہ اس کے ذریعے مکتب کے اخراجات پورے ہوجائیں مثلاً معلمین کی تنخواہ،مکتب کی دیگر ضروریات وغیرہ۔
m    فیس اگر بڑھانے کی ضرورت ہو تو علاقے کی نوعیت دیکھ کر بڑھائیں۔
m    فیس کے لیے تاریخ اور وقت مقرر کریں تاکہ اسے وصول کرنے میں آسانی ہو۔
m    فیس وصول کرنے کے بعد تربیتی نصاب کے آخر میں دیے گئے ’’ماہانہ فیس چارٹ‘‘ میں اس کا اندراج کریںاور اس کی رسید بھی دی جائے تاکہ معاملات صاف رہیں۔
m    جس قدر ممکن ہو والد صاحب / سرپرست خود مدرسے میں آکر فیس جمع کرائیں۔فیس مقامی ذمے دار /ناظم /مہتمم وصول کریں یاپھر معلم بچوں سے لے کر رسید ذمے دار سے بنواکر بچوں کو دیں ۔
m    فیس کے نظام کے ساتھ ساتھ رجسٹر میں اندراج ہو تاکہ معاملات صاف رہیں۔
m    بالغان اور مستورات کی بھی ماہانہ تعلیمی فیس ہو۔
m    فیس سہ ماہی، ششماہی یا سالانہ جمع کرانے کی ترغیب دی جائے اور اگر والدین کو دشواری ہو تو ہر مہینے کی ہی فیس لی جائے۔
وضاحت :فیس کی رقم ہر مکتب کی اپنی ضروریات کے لیے ہے۔ ادارہ’’ مکتب تعلیم القرآن الکریم‘‘ کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
(۳ء۱۱)   غریب بچوں کی فیس ادا کرنے کی ترتیب :
(۱ء۳ء۱۱)   پہلی ترتیب:
اگر کسی جگہ والدین فیس ادا نہیں کرسکتے تو علاقے کے اہل خیر حضرات کو اس طرف متوجہ کرکے اس کی فیس ادا کروائی جائے۔
(۲ء۳ء۱۱)   دوسری ترتیب:
اگر مکتب میں کچھ غریب بچے فیس نہ دے سکتے ہوں تو ان کے لیے مٹھی فنڈ کی بھی ترتیب بنائی جاسکتی ہے ۔
(۳ء۳ء۱۱)    تیسری ترتیب:
صاحبِ حیثیت حضرات کو تیار کیا جائے کہجو طلبا ماہانہ فیس ادا نہیں کرسکتے ان کی فیس اپنے ذمے لے لیں۔
w    امتحانات
’’پنج ماہی اور سالانہ امتحان کا نظام بنائیں اور نتیجۂ امتحان بچوں کے والدین کو بلا کر تقسیم کریں۔‘‘
(۱ء۱۲)    امتحان کے مقاصد:
مندرجہ ذیل مقاصد کے حصول کے لیے امتحان لیا جاتا ہے اگر امتحان سے یہ مقاصد حاصل کیے جائیں تو امتحان کامیاب امتحان کہلائے گا اور ان شاء اللہ اس طرح با مقصد امتحان سے تعلیمی معیار میں بھی ترقی آئے گی اور ادارے کا معیار بہتر اور بلند ہوگا۔
1    امتحان سےطلبا کی محنت سامنے آجاتی ہے۔
2    طلبا، اساتذہ والدین اور انتظامیہ مزید فکر مند ہو جاتی ہے۔
3    امتحان کے ذریعے مکتب میں تعلیمی ماحول بنتا ہے۔
4    بچے کو پڑھا ہو اکتنا یاد ہے یہ سامنے آجاتا ہے ۔
5    امتحان سےپہلے گزشتہ اسباق کی اچھی طرح دہرائی ہو جاتی ہے۔
6    امتحان کے ذریعے مقابلے کی فضا بن جاتی ہے جس سے بچے میں آگے بڑھنے کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔
7    محنت کرنے والے طلبا کی حوصلہ افزائی ہو جاتی ہے جس سے ان میں مزید محنت کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔
8    محنت نہ کرنے والےطلبا کے لیے امتحان ایک خاموش تنبیہ ہے جس کی برکت سے وہ بھی محنت کرنے کاپکا ارادہ کرلیتے ہیں۔
9    استاذ کی محنت کی نوعیت معلوم ہو جاتی ہے ۔
–     بچوں کی کمزوری کی نوعیت سامنے آجاتی ہے جسے دور کرنے میں آسانی ہوتی ہے ۔کیوں کہ کمزوری معلوم کیے بغیر دور نہیں کی جا سکتی۔
(۲ء۱۲)   امتحانات کی ترتیب:
1    سال میں بچوں کے دوامتحان ہوں پہلا پنج ما ہی اور دوسرا سالانہ۔
2    مکتب میں پنج ماہی اور سالانہ امتحان کے لیے سینٹر سے رابطہ کرکے امتحان کی ترتیب بنائیں۔
3    امتحان کے وقت بچوں کو امتحان کی پیشگی اطلاع کے ساتھ انعامات کا بھی اعلان کردیں تاکہ بچوں میں شوق پیدا ہواور اس کی تیاری کرسکیں۔
4    مکتب کے امتحان اسکول کے امتحان کے ساتھ نہ ہوں، پہلے یا بعد میں ہوںتاکہ بچے پر تعلیم کا زیادہ بوجھ نہ پڑے۔
5    مکاتب میں مقامی معاون کے جائزے کو امتحان نہ سمجھا جائے۔
(۳ء۱۲)   گزار شا ت برائے اساتذہ کرام :
(۱ء۳ء۱۲)   امتحان سے پہلے کرنے کے کام:
1    ممکن ہو تو امتحان سے پہلے اساتذہ کرام /معلمات، بچے /بچیاں دو رکعت نماز پڑھ کر نماز حاجت کی دعا مانگ لیںتاکہ بچوں کی شروع سے عادت بن جائے کہ جب بھی کوئی حاجت پیش آئے تو نماز کی طرف متوجہ ہوجائیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں۔
نماز حاجت کی دعا:
’’لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ، سُبْحَانَ اللّٰہِ رَبِّ الْعَرْشِ  الْعَظِیْمِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، اَسْئَلُكَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِكَ وَعَزَآئِمَ مَغْفِرَتِكَ، وَالْغَنِیْمَۃَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ، وَالسَّلَامَۃَ مِنْ کُلِّ اِثْمٍ، لَاتَدَ عْ لِیْ ذَنْبًا اِلَّا غَفَرْتَہٗ وَ لَا ھَمًّا اِلَّا فَرَّجْتَہٗ، وَلَا حَاجَۃً ھِیَ لَكَ رِضًا اِلَّا قَضَیْتَہَا یَاۤ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔‘‘     (الترمذی، الوتر، باب ماجاء فی صلاۃ الحاجۃ، الرقم: ۴۷۹)
ترجمہ: ’’اللہ کےسوا کوئی معبود نہیں ، وہ بڑے حلم والا اور بڑاکریم ہے۔ پاک ہے وہ اللہ جو عرش عظیم کا بھی رب اور مالک ہے، ساری حمد وستائش اس اللہ کے لیے جو سارے جہانوں کا رب ہے ۔ “”””””
اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ان اعمال اور ان اخلاق واحوال کا جو تیری رحمت کا موجب اور وسیلہ اور تیری مغفرت اور بخشش کا پکا ذریعہ بنیںاور تجھ سے طالب ہوں ہر نیکی سے فائدہ اٹھانے اور حصہ لینے کا اور ہر گناہ اور معصیت سے سلامتی اور حفاظت کا۔
اے اللہ! میرے سارے ہی گناہ بخش دے اور میری ہر فکر اور پریشانی دور کردے اور میری ہر حاجت جس سے تو راضی ہو اس کو پورا فرمادے۔ اے سب مہربانوں سے بڑے مہربان۔‘‘
2    تمام طلبا کے والدین خاص طور پر کمزور طلبا کے والدین کو انفرادی بلاکر بتایا جائے کہ ایک ماہ بعد امتحان ہونے والے ہیں، آپ گھر پر بھی محنت فرمالیں تاکہ بچہ امتحان میں کامیاب ہو۔
3    فیل ہونے کے بعد والدین کو بلانا کہ آپ کا بچہ فیل ہوا ہے تو یہ کمزوری کی اطلاع ہے ، ایسی اطلاع دینی ہی نہ پڑےاس کے لیے والد حضرات کو امتحان سے پہلے فکر مند کرلینا چاہیے تاکہ طلبا امتحان میں فیل ہونے سے بچ جائیں۔
(۲ء۳ء۱۲)امتحانی فارم پر کرنے کی ترتیب:
m     امتحان سے قبل امتحانی فارم پر استاذ محترم اپنا نام، مکتب کا نام، طلبا کے نام، مقدار خواندگی اور طلبا کی نماز ڈائری کے نمبر از خود پُر کرنے کی ترتیب بنالیں۔
m    نماز کی ڈائری کے نمبرات کی ترتیب:
1    طلبا نے اگر زیادہ دن جماعت سے نماز پڑھی ہے تو دس(۱۰) نمبر دیں۔
2    اگر زیادہ دن بغیر جماعت کے نماز پڑھی ہے تو سات (۷)نمبر دیں۔
3    اگر زیادہ دن قضا کی ہے تو چار (۴) نمبر دیں۔
4    طالبات نے اگر زیادہ دن وقت پر نماز پڑھی ہو تو دس(۱۰) نمبر دیں اور اگر زیادہ دن قضا کی ہو تو چار (۴) نمبر دیں۔
5    اگر زیادہ دن نماز نہ پڑھی ہو تو صفر (۰) دیا جائے۔ اسی طرح نماز کی ڈائری پر نہ ہو تو صفر (۰)دیا جائے۔
m    نتیجہ امتحان میں قاعدہ /قرآن کریم اور مضامین کے کل نمبرات کا خانہ الگ الگ ہے، اس کو اچھی طرح تسلی سے گن کر خود پُر کریں۔
m    امتحان کے بعد نتیجہ امتحان کی اصل کاپی مکتب میں رکھیں اور ایک عدد فوٹو کاپی مقامی معاون کو دیدیں۔
m    امتحان کے بعد امتحانی فارم کی مدد سے ہر طالب علم کی رپورٹ کارڈ بنائیں۔
m    برائے کرم رپورٹ کارڈ پر نمبرات درج کرتے وقت درجہ بندی کو ضرور ملحوظ رکھیں۔
(۳ء۳ء۱۲)درجہ بندی کی ترتیب :

حصہ ابتدائیہ کے نمبرات
۸۰ فی صد
سے
۱۰۰ فی صد
۱۵۲
سے
۱۹۰
ممتاز
۶۶ فی صد
سے
۷۹  فی صد
۱۲۵
سے
۱۵۱
جید جدا
۵۱ فی صد
سے
۶۵ فی صد
۹۶
سے
۱۲۴
جید
۴۰ فی صد
سے
۵۰فی صد
۷۶
سے
۹۵
مقبول
۴۰ فی صد
سے
کم
۷۶
سے
کم
راسب (فیل)

حصہ اوّل کے نمبرات

۸۰ فی صد
سے
۱۰۰ فی صد
۱۶۰
سے
۲۰۰
ممتاز
۶۶ فی صد
سے
۷۹  فی صد
۱۳۲
سے
۱۵۹
جید جدا
۵۱ فی صد
سے
۶۵ فی صد
۱۰۲
سے
۱۳۱
جید
۴۰ فی صد
سے
۵۰فی صد
۸۰
سے
۱۰۱
مقبول
۴۰ فی صد
سے
کم
۸۰
سے
کم
راسب (فیل)
نوٹ:       1   امتحانات کے روز طلبا کی حاضری یقینی بنانے کی کوشش کریں۔ طالب علم غیر حاضر ہو تو استاذ محترم خود یا مقامی معاون امتحان لیں البتہ اس طالب علم کو پوزیشن اور انعامی نمبر نہ دیے جائیں۔
2      امتحانات کے نتائج مسجد یا مکتب میں آویزاں کرنے کی کوشش کریں۔
(۴ء۱۲)   گزارشات برائے ممتحنین:
1    تمام ممتحنین کرام سے گزارش ہے کہ امتحان لینے سے قبل ہوسکے تو دو رکعت نفل نماز پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ لیں۔
2    ممتحن طلبا کی تعداد اور وقت معلوم کرلیں تاکہ ہر طالب علم کو مناسب وقت ملے اور امتحان بھی وقت پر ختم ہو۔
3    ہر ممتحن بچے پر اپنا اچھا اثر ڈالے، طبیعت میں اتنی سختی نہ ہو کہ بچہ یاد شدہ بھی بھول جائے ۔
4    سوال سمجھانے کی غرض سے اتنا پڑھ کر سنایا جاۓ کہ بچوں کو سوال سمجھنے میں آسانی ہو۔
5    بچہ جتنے نمبر کا مستحق ہے اس سے زیادہ نمبر نہ دیے جائیں اور نہ ہی اس سے کم نمبر دیے جائیں بل کہ پوری جماعت میں میانہ روی اختیار کی جائے۔
6    حتی الامکان کمزور طلبا کو فیل نہ کریں البتہ کیفیت کے خانے میں لکھ دیں ’’رعایتی نمبر‘‘ ۔
7    پختگی اورادائیگی کے الگ الگ نمبرات ہیں لہٰذا ان کومد نظر رکھتے ہوۓ امتحان لیا جائے۔
8    تربیتی نصاب کے مضامین میں سے ہر مضمون کے نمبر الگ ہیں، لہٰذا ہر مضمون کے نمبر متعلقہ خانے میں درج کیے جائیں۔
ممتحن طالب علم کا امتحان لینے کے بعد فوراً نمبرات لکھ لیں۔ تمام طلبا کو آخر میں ایک ساتھ نمبرات نہ دیں۔
9    نمبرات انگریزی ہندسوں میں لکھیں۔ نمبرات اندراج کرتے وقت طالب علم کا نام ضرور معلوم کرلیں تاکہ نمبرات دینے میں غلطی نہ ہو۔
–    ہر طالب علم کی تعلیمی کیفیت مختصراً لکھیں ۔ کیفیت اور نمبرات میں تضاد نہ ہو۔
جو طالب علم کچھ بھی نہ بتاسکے اس کی کیفیت کے خانے میں وضاحت کردی جائے تاکہ اگلے درجہ میں ترقی روک دی جائے۔
q    پوری کلاس کی مجموعی کیفیت آخر میں(کیفیت) کے خانے میں ضرور لکھی جائے۔ واضح رہے کہ مجموعی اور انفرادی کیفیت میں تضاد نہ ہو۔
w    تعلیم وتربیت میں مزید بہتری کے لیے آں جناب کی مفید آراء ہو تو ہمیں ضرور آگاہ فرمائیں۔
امید ہے آں جناب مذکورہ بالا گزارشات کا ضرور خیال فرمائیں گے۔
(۵ء۱۲)   ضابطہ امتحان برائے نورانی قاعدہ :
(۱ء۵ء۱۲)     پختگی :
پختگی کے ۷۰نمبر ہیں۔ہر طالب علم سے قاعدہ میں سے کم از کم تین جگہوں سے پوچھیں اور دو تین سطریں سنیں۔
پختگی میں ان دو باتوں کا خیال رکھیں:
1    مفردات ومرکبات کی بچے کو پہچان ہو، یعنی حروف کی شکلوں کی پہچان کرسکتا ہو۔
2    ہجے اور رواں دونوں طریقوں سے اچھی طرح پڑھ سکتا ہو۔ اگر طالب علم حروف کی پہچان یا رواں میں غلطی کرے توچار نمبر کاٹیں۔ ہجے میں غلطی کرے تو تین نمبر کاٹیں اور اٹکن کی صورت میں ایک نمبر کاٹیں۔
3    اگر بچہ رواں پڑھنا بالکل نہ جانتا ہوتو ۳۵نمبر کاٹیں۔
(۲ء۵ء۱۲)  تجوید:
تجوید کے ۳۰نمبر ہیں۔تجوید سے متعلق مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھیں:
1    حروف کی ادائیگی صحیح ہو۔
2    تنوین، جزم اور تشدیدقلقلہ، غنہ وغیرہ جتنا قاعدہ کا سبق ہوا ہےاس کو صحیح طریقے سے پڑھ سکتا ہو۔  اگر طالب علم اس میں غلطی کرے تو ایک نمبر (۱) کاٹیں۔
وضاحت:
1    طالب علم کسی ایک حرف کو مخرج سے ادا کرنے میں کئی بار غلطی کرے مثلاً “ض”کئی مرتبہ غلط پڑھے تو صرف دو نمبر کاٹیں، البتہ “ض” اور “ظ” غلط پڑھے یا اس کے علاوہ کوئی اور حرف غلط پڑھے تو پھر مزید دو نمبر کاٹیں۔ اسی طرح غنہ وغیرہ میں کئی مرتبہ غلطی کرے تو صرف ایک نمبرکاٹیں ، البتہ غنہ کے ساتھ تشدید یا اس کے علاوہ کسی اور تجوید کے قاعدہ میں غلطی کرے تو پھر دوسرا نمبر بھی اسی ترتیب پر کاٹیں۔ خلاصہ یہ کہ ایک ہی قسم کی غلطی کئی بار ہو تو ایک مرتبہ نمبر کاٹیں اور غلطی دوسری نوعیت کی ہو تو پھر مزیدنمبر کاٹیں۔
2    جن طلبا کا نصاب حصہ اوّل میں آٹھ ماہ یا اس سے زیادہ ہو تو حفظ سورۃ کا امتحان بھی لیا جائے۔
(۶ء۱۲)    ضابطہ امتحان برائے ناظرہ: (قرآن کریم / حفظ سورۃ)
(۱ء۶ء۱۲)      پختگی:
پختگی کے ستر (۷۰) نمبر ہیں۔
1    ہر طالب علم سے ناظرہ قرآن کریم میں سے کم از کم دو مقامات سے پوچھیں اور حفظ سورہ میں سے کم از کم ایک سورت سنیں۔
2    ہر مقام میں سے دس سطریں سنی جائیں۔
3    ایک غلطی پر چار نمبر کاٹے جائیں اور اٹکن پر ایک نمبر کاٹا جائے۔
(۲ء۶ء۱۲)   تجوید:
تجوید کے تیس (۳۰) نمبر ہیں۔ تجوید سے متعلق مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھیں:
1    حروف کی ادائیگی صحیح ہو۔
m    اگر طالب علم کسی حرف کو اس کے صحیح مخرج سے ادا نہ کرے تو دو نمبر کاٹے جائیں۔
2    لفظ اللہ، را، مدّات، قلقلہ، تشدید، غنہ، اظہار، اقلاب، ادغام اور وقف درست ہو۔
m    اگر طالب علم ان میں سے کسی میں غلطی کرے تو ایک نمبر کاٹیں۔
وضاحت:  طالب علم ایک ہی قسم کی غلطی کئی مرتبہ کرےتو ایک مرتبہ ہی نمبر کاٹیں، ہر بار نہ کاٹیں۔ البتہ غلطی کی نوعیت دوسری ہو تو مزید نمبر بھی کاٹیں۔ مثلاً: طالب علم”ض “ بھی غلط پڑھے اور ”ع “ بھی تو دونوں کے نمبر کاٹے جائیں البتہ”ض “ کئی مرتبہ غلط پڑھے تو ایک ہی مرتبہ نمبر کاٹیں ۔ اسی طرح طالب علم قلقلہ اورتشدید بھی صحیح نہ کرے تو دونوں کے نمبر کاٹیں۔
وضاحت:    امتحان لیتے وقت طلبا کو اپنے ذہن میں کل نمبر دے دیے جائیں، پھر اگر طالب علم غلطی کرے تو نمبر کاٹے جائیں۔ مثلاً: پختگی کے ستر (۷۰) نمبر ہیں، اگر طالب علم ایک غلطی کرے تو (۷۰) میں سے چار نمبر کاٹیں مزید غلطی کرے تو فی غلطی چار نمبر کاٹتے جائیں۔
(۷ء۱۲) ضابطہ امتحان برائے حفظ :
1    ایک سے سات پاروں تک دو سوال کیے جائیں۔ ہر سوال ۱۵ سطروں تک سنا جائے۔
2    ایک سے ۱۵ پاروں تک تین سوال کیے جائیں۔ ہر سوال ۱۲ سطروں تک سنا جائے۔
3    ۱۵ سے زائد پاروں پر ۴ سوال کیے جائیں ۔ ہر سوال ۱۰ سطروں تک سنا جائے۔
4    ایک غلطی پر ۴ نمبر کاٹے جائیں۔
5    اٹکن پر ایک نمبر کاٹا جائے۔
(۸ء۱۲)   ضابطہ امتحان برائےمضامین تربیتی نصاب:
1    تربیتی نصاب کے چھ مضامین میں سے ہر مضمون سے سنا جائے۔
ہر مضمون سے متعلق دو سوال طالب علم سے کریں۔
2    طالب علم دونوں سوالوں کا درست جواب دے تو پندرہ نمبر دیں۔ ایک سوال کا غلط جواب دے تو پانچ نمبر کاٹیں اور کچھ جواب درست اور کچھ غلط ہو تو دو نمبر کاٹیں۔
3    دونوں سوال کا غلط جواب دے تو مزید آسان آسان سوال کرکے کم از کم پانچ نمبر دیں۔ اگر طالب علم آسان سوالوں کا جواب بھی نہ دے سکے تو پھر صفر دیا جائے۔
وضاحت:   تربیتی نصاب میں یہ دو علامات ’’ ٭  ،  &  ‘‘ استعمال کی گئی ہیں :
1    ’’ ٭‘‘     یہ علامت جہاں ہو اس کا مطلب طالب علم سے معلوم کریں۔
2    ’’  &  ‘‘یہ علامت جہاں ہو اس کے بارے میں زبانی سوال طالب علم سے کریں۔
(۹ء۱۲)   نتیجہ  امتحان:
1    نتیجہ امتحان (رپورٹ کارڈ) بہترین ہوناچاہیے،اس کے ذریعے بچوں اوران کے والدین میں اہمیت اور فکر پیدا ہوتی ہے۔
2    نتیجہ امتحان (رپورٹ کارڈ) میں مکتب کانام اور مکمل پتا ہو۔
3     طالب علم کا نام ہو۔
4     تعلیمی سال کا بھی خانہ (کالم) ہو۔
5     بچوں کی سالانہ حاضری/غیر حاضری کا ریکارڈ بھی ہو۔
6    پنج ماہی و سالانہ امتحانات کے الگ الگ نمبرات ہوں۔
7    تمام مضامین کے الگ الگ نمبرات ہوں۔
8    پنج ماہی اور سالانہ امتحان کی کیفیت کا الگ الگ خانہ (کالم) ہو۔
9    امتحان کی تاریخ لکھی جائے۔ درجہ کامیابی لکھا جائے۔ (ممتاز، جید جداً، وغیرہ)
–    دستخط معلم، مقامی معاون اور دستخط سرپرست کا خانہ ہو۔
q    نتیجہ امتحان بچوں کے والدین کو بلاکر دیں۔
w    نتیجہ امتحان دیتے وقت سرپرستوں کو فیس اور یونی فارم کے متعلق ضرور یاددہانی کرائی جائے۔
نوٹ:    نتیجہ امتحان(رپورٹ کارڈ) ادارئہ مکتب تعلیم القرآن الکریم سے آپ منگواسکتے ہیں۔
(۱۰ء۱۲)   امتحانی نتائج:
واضح رہے کہ امتحان کے بعد آنے والا نتیجہ ہی آئندہ کے لائحہ عمل کے لیے بنیاد کا کام دیتا ہے۔ نتائج سامنے آنے کے بعد صحیح رخ پر محنت کی ابتداء ہوتی ہے ،کیوںکہ نتیجے کی حیثیت ایسی ہے جیسے ایکسرے رپورٹ کی حیثیت ہے یعنی جب کوئی مریض اپنے مرض کا چیک اپ کرواتا ہے تو اسے رپورٹ ملتی ہے اصل وہ رپورٹ ہو تی ہے اور اس رپورٹ کی بنیاد پر علاج شروع ہو تا ہے اب اگر کوئی شخص ایکسرے رپورٹ لے کر خوشی خوشی گھر جائے اور اسے الماری میں سنبھال کر رکھے اور بس ۔آگے اس کی بنیاد پر علاج نہ کروائے تو ایسا کرنے سے اس مریض کا علاج یقینا نہیں ہوگا ،اور مرض باقی رہے گا بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ بھی ہو تا رہے گا۔
امتحانی نتائج کی مثال بھی اسی طرح کی ہے کہ اگر نتیجہ مرتب ہونے کے بعدصرف فائل میں لگادیا گیا تو ایسا کرنے سے امتحان کا فائدہ حاصل نہ ہو گا۔امتحانی نتائج کا فائدہ اس وقت حاصل ہو گا جب اس کی روشنی میں ہر بچے کی نوعیت کو مد نظر رکھ کر محنت کی جائے ۔ ایسا کرنے سے ان شاء اللہ تعلیمی معیار میں بہت جلد نمایاںبہتری آئےگی جس سے اِنْ شَآءَ اللّٰہُ   ادارے کا معیار بھی بلند ہوگا۔
e    سالانہ جلسہ
’’سالانہ جلسے کا نظام بنائیں،اس میں طلبا کے والدین ، علاقے کے ذمے دار اور عوام کو شرکت کی دعوت دیں، موبائل، ایس ایم ایس کے ذریعے یاد دہانی کرائی جائے اور طلبا کو بہترین انعامات(شیلڈ) دیں۔‘‘
(۱ء۱۳)     سالانہ جلسے کا مقصد اور اس کے فائدے:
1    جلسہ کا مقصد یہ ہے کہ عوام میں دینی بیداری پیدا ہوجائے۔
2    مکتب کی اہمیت پیدا ہوتی ہے اوردینی تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ اور شوق پیدا ہوتا ہےلوگوں میں مایوسی ختم ہوتی ہے اور حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔
3    نئے مکاتب کھلنے میں مدد ملتی ہےاور بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتاہے۔
4    بچوں میں اعتماد بڑھتاہے ،ذوق وشوق میں اضافہ ہوتاہے۔
5    مکتب کی تعلیمی نوعیت اوراس کے فوائدعوام کے سامنے آتے ہیں۔
6     معلم کی محنت عوام کے سامنے آتی ہے۔
7    بچوں کی جھجھک ختم ہوتی ہے اور ان میں مجمع کے سامنے بات کرنے کا سلیقہ پیدا ہوتا ہے۔
8      عوام کے سامنے یہ بات آجائے گی کہ ہمارے بچے قرآن کریم کے ساتھ ساتھ دین کی اہم بنیادی اور ضروری باتیں سیکھ رہے ہیں۔
(۲ء۱۳)  سالانہ جلسے کا وقت اور جگہ:
1    سال میں ایک مرتبہ سالانہ جلسہ ضرور کیاجائے ۔
2    اس کا وقت دو سے ڈھائی گھنٹہ رکھاجائے(زیادہ سے زیادہ تین گھنٹہ)اورجلسہ کے لیے ایسادن اوروقت رکھاجائے جس میں علاقے کے تمام افرادجمع ہوسکیں۔
3    سالانہجلسہ مسجدمیں کیاجاسکتاہے۔
4     اگرمسجدمیں نہ ہوسکے تو کھلی جگہ میدان یاپھرکسی ہال میں بھی کیاجاسکتاہے۔
5     مقررہ وقت پرسالانہجلسہ شروع اور ختم ہو۔
6    اس کے لیے فضول اخراجات نہ کیے جائیں کم سے کم خرچ کیا جائے۔
(۳ء۱۳)   سالانہ جلسے کا اعلان:
1    اشتہار ، دستی پرچے(پمفلٹ) ، دعوت نامہ اور ایس ایم ایس کے ذریعےسالانہ  جلسے کا اعلان کرسکتے ہیں ۔
2    سالا نہ جلسے کے لیے دعوت نامہ بنایاجائے۔
3     دعوت نامہ میں وقت اور جگہ کا اندراج ہو۔
4     دعوت نامہ والدین اورخصوصی مہمان تک پہنچانے کی فکر کی جائے۔
5    سالانہ جلسے کا اعلان جمعے کی نماز کے بعد بھی کیا جائے۔جلسے سے ایک دن پہلے یاد دہانی کا میسج کیا جائے۔
(۴ء۱۳)    سالانہ جلسے میں شرکت کرنے والے مہمان:
1     بچوں کے سرپرست اور ان کے احباب و متعلقین اور محلے یا بستی کے تمام افراد کو دعوت دی جائے۔
2     بچوں کواپنے والدین اور رشتہ داروں کو لانے کی ترغیب دیں۔
3    بستی اوراطراف سے کسی بزرگ، عالم دین اوراہل خیرحضرات کو دعوت دی جائے۔
4     ائمہ مساجد، مقامی اور اطراف کے علماء کرام اور حفاظ کو بھی دعوت دی جائے۔
5     اطراف کے مکاتب کے ذمے دار اور معلمین کو بھی مدعو کیا جائے۔
6     اطراف کے اسکول کے ذمے دار اور اساتذہ کرام کو بھی دعوت دی جائے۔
7    جس گاؤں و دیہات میں مکتب نہیں ہے تو وہاں کے مقامی ذمے داروں کو دعوت دی جائے تاکہ ان کا بھی شوق و جذبہ بنے کہ وہ اپنے گاؤں میں مکتب شروع کریں ۔
(۵ء۱۳)   سالانہ جلسے میں پروگرام :
1     سالانہ جلسے میں دو طلبا کو ذکر ودعا میں بٹھایا جائےکہ وہ نفل پڑھ کر ذکر وتلاوت کرکے دعا مانگیں کہ اے اللہ! اس جلسے کو قبول فرماکر اس محلے اور ہر محلے میں بچوں اور بڑوں کی تربیت فرما۔
2    تمام طلبا وطالبات(آٹھ سال سےکم عمر بچیاں) کوپروگرام میں شریک کیاجائےتاکہ خود اعتمادی بڑھے۔
3    جلسے میںپیش کیے جانے والے پروگرام کا پہلے کاغذپر خاکہ تیار کریں۔مثلاً: پہلے تلاوت پھر طلبا سے حمد ونعت، سبق آموز مکالمے، سوال وجواب کی صورت میں اسباق میںسے مقابلے، تقسیم انعامات، بیان ودعا، آئندہ سال کےداخلے کا اعلان وغیرہ۔
4    بچوں کا انتخاب کرکے ان کو پروگرام کی مشق کرائیں۔
5    جلسے میں حصہ لینے والے بچوں کو پروگرام شروع ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے پہنچنے کی تاکید کریں تاکہ بچے پروگرام اچھی طرح پیش کرسکیں۔
6    جلسے میں حصہ لینے والے بچوں کو حاضری کی خاص طور پر تاکید کریں۔
7    پروگرام بناتے وقت طلباء کو دو جماعت میں تقسیم کریں ،پہلی جماعت ذہین بچوں کی جن کو انفرادی پروگرام دیں،دوسری جماعت متوسط بچوں کی جن کواجتماعی پروگرام مثلاً حمدونعت وغیرہ دیں۔
8    اجتماعی پروگرام پیش کیا جائے تاکہ کم سے کم وقت لگے اور زیادہ سے زیادہ بچے حصہ لے سکیں۔
9    اگر مکتب میں تعلیم بالغان کا بھی نظم ہو تو ان سے بھی پروگرام پیش کرائیں تاکہ بالغان کی تشکیل آسان ہو ۔
–    بچے اور بچیاں(آٹھ سال سے کم عمر ) مکتب کے یونی فارم کے ساتھ پروگرام میں حصہ لیں ۔
q    پروگرام نصاب میں سے ہو ، حمدونعت اور اخلاقی واصلاحی سبق آموز مکالمے نصاب کے علاوہ سے بھی لے سکتے ہیں۔
w    مکتب کے فوائد کے اوپر ایک مکالمہ ضرور رکھا جائے۔
e     نصاب کے تمام مضامین میں سے پروگرام پیش کیاجائے تاکہ بچے مکتب میںجو کچھ بھی پڑھ رہے ہیں وہ سب کے سامنے آجائے اور والدین کو معلوم ہوجائے کہ ہمارا بچہ مکتب میں کیا سیکھ رہاہے۔
r     ایک سادہ کاغذ تقسیم کرکےجلسے میں شریک لوگوں کے تاثرات لکھواکر جمع کیے جائیں۔ (جلسہ کیسا رہا؟ بچوں نے کیسا پروگرام پیش کیا؟  آپ کو پروگرام کا کون سا حصہ سب سے اچھا لگا؟ مفید تجویز وغیرہ )۔
t    جلسے کے شروع میں پروگرام کے متعلق اورجلسے کے اخیر میں مکتب سے متعلق ترغیبی بات کی جائے۔
(۶ء۱۳)    سالانہ جلسے میں انعامات:
1    جلسے میں انعامات تقسیم کرنے سے بچوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اوردوسرے طلبا میں ذوق وشوق پیداہوتاہے۔
2    انعامات سے بچوں میں تعلیم کا جذبہ اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا شوق پیدا ہوتا ہے۔
3    انعامات کی تقسیم آخر میںبڑے عالم دین ،مہتمم، بزرگ اوراہل خیر حضرات کے ہاتھوں سے کرائی جائے ۔
4    سالانہ امتحان میں اول،دوم اورسوم پوزیشن لے کر کامیاب ہونے والےطلبا کو سالا نہ جلسے میں شیلڈ/ میڈل دی جائے۔
5     سال کے دوران مکمل حاضررہنے والے طالب علم،وقت پر پہنچنے والےطالب علم اورنماز کی پابندی کرنے والے طالب علم کو بھی انعام( شیلڈوغیرہ) دی جائے۔
6    کوشش کریں کہ جلسے میں شریک تمام بچوں کو عمومی انعام دیا جائے تا کہ حوصلہ افزائی ہو۔
7    جو بچے اچھے نمبرات سے کامیاب ہوئے ہیں ان کو مزید خصوصی انعام دیا جائے۔
8    علاقے کی بڑی شخصیت کے ہاتھ سے بھی انعام دلوائیں تاکہ وہ مکتب کے لیے معین و مددگار بنے۔
9    اگر امتحان میں کسی استاذ کے ۹۵فیصد طلباء ممتازہوں تو حوصلہ افزائی کے لیےاستاذ کوانعام دیا جائے۔
نوٹ:     شیلڈ اور میڈل آپ ادارہ” مکتب تعلیم القرآن الکریم “سے قیمتاً منگواسکتے ہیں۔
(۷ء۱۳)  جلسے میں ترغیبی بات، تشکیل اور دعا:
1     جلسے میںمکاتب کے فضائل ،اہمیت پھر اصول و ضوابط اور مقاصد کو بیان کیا جائے۔
2    ماں باپ کے سامنے اولاد سے متعلق والدین کی ذمے داریاں بیان کی جائیں۔
(دیکھئے صفحہ نمبر ۴۶)
3    مکتب کو منظم چلانے اور اس کا بھرپور تعاون کرنے کے لیے ارادے کرائیں۔
4    بچوں کو پابندی سے مکتب بھیجنے کے متعلق ہدایات دی جائے۔
5    جلسے میں موجودلوگوں کے بچوں کو مکتب بھیجنے کے لیے ترغیب دی جائے۔
6    جلسے میں موجودبالغ افراد کو مکتب میں آنے کے لیے ترغیب دیں اورانھیں اپنی ذمے داریوں کا احساس دلاکرباقاعدہ تشکیل کر کے بالغان کی جماعت بنائی جائے۔
7    جلسے میں موجودلوگوں کو ترغیب دی جائے کہ بچیوں کو بنات کے مکتب میں بھیجیں۔
8    مستورات کی تعلیم کی اہمیت بیان کی جائے اورعورتوں کو دینی ماحول بنانے کی فکر دلائی جائے ۔
9     داخلہ فارم بھی موجود رکھیں۔
–    مزید مکاتب قائم کرنے کی ترغیب دی جائے۔
q    دعاپرجلسے کا اختتا م ہواور دعا سے پہلےجلسے میں شرکت کرنے والے مہمان حضرات ،ائمہ کرام اور بڑے عالم جو تشریف لائے ہوں ان کا شکریہ ادا کیا جائے۔
w    سالانہ جلسے میں شرکت کرنے والے مہمانوں کو جلسہ ختم ہونے کے بعد شکریہ کا ایس ایم ایس کیا جائے۔
r      تعلیم بالغان
’’بالغان کے لیے دینی تعلیم کا انتظام کیا جائے۔ تعلیم کے اوقات فجر، مغرب  اور عشاکے بعد رکھے جائیںاور ان کے ساتھ بہت حکمت سے معاملہ کیا جائے تاکہ وہ بھی دین کی اہم اور بنیادی باتیں جو فرض عین ہیں سیکھ سکیں۔ ‘‘
(۱ء۱۴) تعلیم بالغان کی اہمیت اور ضرورت:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’قَد تَعَلَّمَ اَصحَابُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی کِبَرِ سِنِّہِمْ۔‘‘
(صحیح البخاری، العلم، باب الاغتباط فی العلم والحکمۃ، رقم الباب:۱۵ )
ترجمہ: ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عمر رسیدہ ہونے کے باوجود دین سیکھا۔ “
مطلب یہ ہے کہ علم کی تحصیل سے رکنا نہیں چاہیے بل کہ اس سلسلہ کو جاری رکھنا چاہیے کیوں کہ علم تو مہد (ماں کی گود)سے لحد(قبرمیں جانے) تک حاصل کیا جاتا ہے۔
حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جب ایمان نہیں لائے تھے اور جاہلیت کا دور تھا، انہیں خیر بتانے والا معلم بھی میسر نہیں تھا اور نہ انہیں علم کی رغبت تھی، ایمان لانے کے بعد اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان کو علم بھی عطا فرمادیا اور علم کی رغبت اور شوق بھی عطا فرمادیا، انہوں نے اس ضرورت کے پیش نظر علم حاصل کیا۔
چناں چہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
” کُنْتُ اُقْرِیُٔ رِجَالًا مِّنَ الْمُہَاجِرِیْنَ  مِنْہُمْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ۔“              (صحیح البخاری، الحدود، باب رجم الحبلی فی الزنی اذا احصنت، الرقم:۰ ۶۸۳)
ترجمہ: میں مہاجرین کی ایک جماعت کو پڑھایا کرتا تھا، ان میں حضرت عبد الرحمٰن بن عوف  رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔         (ماخوذ از: کشف الباری: ۳/۳۱۶)
معلوم ہوا کہ اصل تو یہی ہے کہ آپ پہلےعلم حاصل کریں لیکن اگر آپ علم حاصل نہیںکرسکے تو بڑے ہوکر بھی علم حاصل کرنا ضروری ہوگا۔
(۲ء۱۴)    فائدہ :
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ!بعض اسکول کی معلمات کے لیے ہفتہ میں ایک دن تعلیم ِ بالغات کا نظم بنا اس کا فائدہ محسوس ہوا۔معلمات میں پردہ ،سادگی اورفکر ِآخرت پیدا ہوئی۔
بعض جگہ ہفتے میں چار دن مردوں اور عورتوں کے لیے نظم بنا ،دین کی بہت ساری اہم باتیں جن کا جاننا اورسیکھنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے وہ معلوم ہوگئیں ،عربی زبان سے مناسبت پیدا ہوگئی،قرآن ِکریم صحیح پڑھنا سیکھا اور ا س کی تفسیر بھی پڑھی،جس سےنماز میں دل لگنے لگا۔
کوشش کریں کہ مکاتب میں تعلیم ِ بالغان کا نظم بنایا جائے تاکہ محلے کے وہ لوگ جن کا وقت ہوٹلوں ،پارکوں ، کلبوں میں بے کار گزر جاتا ہے ،اعمال اوراخلاق کےاعتبا ر سے بہت کمی آجاتی ہے ان کو دینی تعلیم سیکھنے میں لگا یا جائے اور ان کو مصروف رکھا جائے۔
ا س لیےکہ اَلْفَرَاغُ  بَابُ الْمَعْصِیَۃِ   (یعنی فراغت گناہ کا دروازہ ہے)۔
کتنے لوگ ہیں جو صبح میں نو دس بجے تک فارغ ہیں اور بعض لوگ شام پانچ تا رات عشا فارغ ہیں، ان کے اوقات کو قیمتی بنایا جائے ہر مسجد ، ہر محلے میں تعلیم بالغان کی درس گاہ قائم ہوگی تو بہت مفید ہوگا۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ!مردوں کے لیے اور مستورات کے لیے ” تربیتی نصاب برائے بالغان “ اور تربیتی نصاب برائے مستورات “ مرتب کیا جارہا ہے ۔
(۳ء۱۴) تعلیمی اوقات:
m    مردوں کے لیے فجر اور عشا کے بعد ایک ایک گھنٹے کی جماعت بنائیں کیوں کہ یہ ان کے لیے سہولت کا وقت ہوتا ہے۔
m    عورتوں کے لیے صبح نو تا گیارہ یا شام تین تا پانچ ایک ایک گھنٹے کی جماعتیں بنائیں ۔
m    علاقے کی نوعیت اور ضرورت کے مطابق بڑوں کا وقت دوپہر میں یا کسی اور وقت میں بھی رکھ سکتے ہیں۔
m    بڑوں کے لیے بچوں سے زیادہ سہولتیں رکھی جائیں تاکہ ان کو دوسری مشغولیات چھوڑ کر دین سیکھنا آسان ہوجائے۔
m    بڑوں کے لیے الگ جماعت بنائی جائے ،انھیں بچوں کے ساتھ نہ بٹھایا جائے۔
t    اسکول میں دینی تعلیم
’’دورکعت نماز پڑھ کر اللہ تعالیٰ سےدعا مانگ کراسکول کی انتظامیہ سے بات کریں کہ ایک پیریڈقرآن کریم اور ایک پیریڈ ’’تربیتی نصاب‘‘ پڑھائیں۔‘‘
(۱ء۱۵)   اسکول میں دینی تعلیم کی اہمیت :
m    اکثر بچے اسکول میں داخلہ لیتے ہیں اگر اسکولوں میں علم دین سکھایا جائے تو اکثر بچے عصری تعلیم کے ساتھ دین سیکھ لیں گے۔
m    وہ طلبا و طالبات جو کسی مکتب میںنہیں پڑھتے وہ دین کا بنیادی علم حاصل کرلیں گے۔
(۲ء۱۵)  ذمے داروں کی ذہن سازی:
m    جب آپ دنیوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم کی فکر کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی مدد آپ کے ساتھ شامل ہوگی۔
m    جب آپ قرآن کریم اور حدیث پڑھائیں گے تولوگ آپ سے دینی جذبے کے ساتھ جُڑیں گے۔
m     قرآن و حدیث کی برکت سے بچوں کے ذہن کھلتے ہیں۔ ناموراسلامی مؤرّخ علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ نے لکھا ہے ” قرآن کریم تجوید کے ساتھ پڑھنے سے بچوں کے ذہن کے دریچے کھل جاتے ہیں اور مستقبل میںان کے باصلاحیت بننے کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں۔“
m    جب آپ اسکول کے سالانہ جلسے میں تربیتی نصاب سے پروگرام پیش کریں گے تو والدین اور آنے والے دیگرمہمان حضرات متاثر ہوں گے اورطلبا کی تعداد میں اِنْ شَآءَ اللّٰہُ اضافہ ہوگا۔
m    آسانی سے ہوسکے تو سوا گھنٹے کا وقت دیں تاکہ نورانی قاعدہ،ناظرہ قرآن کریم اور تربیتی نصاب مکمل پڑھایا جاسکے، ورنہ جو وقت آپ آسانی سے دے سکیں۔
(۳ء۱۵)   اسکول میں تربیتی نصاب کی تعلیم:
m    اسکول میں پہلے سے نظام موجود ہے۔صرف نصاب جاری کرنا ہے۔
m    محترم پرنسپل اور محترم استاذکو ترغیب دینا اورذمے داری کا احساس دلاکر نصاب کے فوائد اور تجربات ان کے سامنےبیان کیے جائیں۔
m    اسکول کی انتظامیہ سے ملاقات کرکے ان کی ذہن سازی کی جائے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ!اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اسکول میں پڑھنے والے طلبا/طالبات کی تعلیم و تربیت پر مشتمل پہلی جماعت سے آٹھویں جماعت تک کے لیے ‘ـ’’تربیتی نصاب برائے اسکول‘‘ مرتب کیا جارہا ہے جو اِنْ شَآءَ اللّٰہُ  بچوں کی دینی ذہن سازی کے لیے مفید ہوگااوراس نصاب کے ذریعے بچوں میں سنتوں کا شوق، والدین کی قدر دانی اساتذہ کرام کا احترام آئے گا۔