سرپرستوں سے ملاقات

–    سرپرستوں سے ملاقات
’’ سرپرست کی ملاقات ( والدین میٹنگ)سے انتظامیہ اور سرپرستو ں کا رابطہ مضبوط ہوتا ہے اورسرپرستوں سے تعلیمی و تربیتی تعاون ملتا ہے۔‘‘
’’ہر مہینے میں ایک مرتبہ ورنہ کم از کم سال میں چار مرتبہ سرپرستوں سے ملاقات ہو۔ ‘‘
(۱ء۱۰)     سرپرستوں سے ملاقات کی اہمیت اور فوائد:
1    تعلیمی ترقی کے لیے سرپرست، ذمے دار اور معلم تینوںکا جوڑ ضروری ہے۔
2    سرپرست کی ملاقات سے مکتب کی تعلیم عمدہ کرنے میں مدد ملتی ہے۔
3    سرپرستوں کی ملاقات سے استاذ فکرمندہوتاہے۔
4     بچوں کی غیر حاضری پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
5     سرپرست سے متعلق مکتب کا نظام قابو میں آتا ہے مثلاً: گھرمیں دینی تربیت، مکتب کے علاوہ جو وقت ہے اس کی حفاظت، فیس، یونی فارم وغیرہ ۔
6     بچوں کی خوبیاں اور کمزوریاں والدین کے سامنے آتی ہیںاور بچے کی تعلیم وتربیت میں مدد ملتی ہے۔
7     بچوں اوروالدین کے اندر بھی مکتب کی اہمیت اور فکر پیدا ہوتی ہے۔
(۲ء۱۰)    والدین /سرپرستوں سے ملاقات کی جگہ اور تعداد:
1    سرپرستوں سے ملاقاتمکتب میں رکھی جائے اور مندرجہ ذیل طریقوں سے والدین کو پیشگی اطلاع دی جائے:
1     دعوت نامہ         2     فون         3    ایس ایم ایس
2         ملاقات سال میں کم از کم چار مرتبہ اس طرح ہوکہ ،پنج ماہی امتحان سے پہلے اور پنج ماہی امتحان کے بعد پھر سالانہ امتحان سے پہلے اور سالانہ امتحان کے بعد ہو۔
3    ہر ماہ انفرادی ملاقات کی بھی ترتیب بنائی جائے۔
(۳ء۱۰)   سرپرستوں سے ملاقات کے امور:
1    والدین سے ملاقات کے امور اساتذہ اورناظم مشورہ سے آپس میں پہلے طے کریں مثلاً:
1   ترغیبی بات        2   بچوں کی حاضری    3   تربیت
4   علم پر عمل        5   یونی فارم         6   فیس کے قوانین کی رعایت وغیرہ)۔
2       مردوں کے ساتھ مستورات کا بھی پردے کے ساتھ نظم بنایا جائے ۔
3    ترغیبی بات کریں۔
4     تعلیم اور تربیت اور نظام کے متعلق سمجھایا جائے۔
5     بچوں کا بھی مختصرپروگرام پیش کیا جائے۔
6       والدین کی حوصلہ افزائی کریں کہ آپ کا اپنے بچوں کو قرآن کریم اور دین کی بنیادی
باتیں سیکھنے کے لیے بھیجنا یقیناً قابل تعریف ہے اور آپ ہماری طرف سے مبارک باد
کے مستحق ہیں۔
7    والدین کی رائے اور تاثرات تحریری طور پر لیے جائیںکہ مکتب سے کیا فائدہ ہورہا ہے؟
8    اجتماعی ملاقات میں اولاد سے متعلق والدین کی ذمے داریاں بتائی جائیں۔
(۴ء۱۰)   اولاد سے متعلق والدین کی ذمے داریاں:
1    دنیا کا کوئی بھی تعلیم وتربیت کا ادارہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک کہ بچوں کے سرپرست (والدین) ساتھ نہ دیں کیوں کہ بچوں کا اکثر وقت سرپرستوں کے پاس گزرتا ہے لہٰذا سب سے بڑی ذمے داری سرپرست حضرات کی ہے کہ بچوں کی تعلیم وتربیت کی نگرانی وہ خود کریں۔
2    انسان کی طبیعت پر سب سے زیادہ ماحول کااثر ہوتا ہے۔ اس لیے سرپرست حضرات کو چاہیے کہ اپنے گھر کا ماحول اچھا بنائیں۔
3    بچہ سب سے زیادہ اپنی ماں سے مانوس ہوتا ہے اور آٹھ، نو سال کی عمر جو تربیت کا اصل وقت ہے اس زمانے میں اکثر وقت اپنی ماں کے پاس گزارتا ہے۔
4    ماں باپ کو چاہیے کہ ہر نماز کے بعد، تہجد کےوقت، قرآن کریم کی تلاوت کے بعد ، اولاد کے لیے دعا مانگیں ،والدین کی دعائیں بچوں کے حق میں بہت جلد قبول ہوتی ہیں۔
خاص طورپریہ دوقرآنی دعائیں خوب اہتمام سے مانگیں:
’’رَبَّنَاھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا۔‘‘            (الفرقان:۷۴)
ترجمہ:’’ہمارے پروردگار!ہمیںاپنی بیوی بچوںسےآنکھوںکی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا سربراہ بنا۔‘‘
’’رَبِّ اَوْزِعْنِیْۤ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْۚؕ  اِنِّیْ  تُبْتُ اِلَیْكَ وَاِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ۔‘‘                    (الاحقاف:۱۵)
ترجمہ:’’یارب!مجھے توفیق دیجیے کہ میں آپ کی اس نعمت کاشکراداکروں جوآپ نے مجھے اور میرے ماں باپ کوعطافرمائی، اورایسے نیک عمل کروں جن سے آپ راضی ہوجائیں، اورمیرے لیے میری اولاد کو بھی صلاحیت دے دیجیے۔میں آپ کے حضورتوبہ کرتاہوں، اورمیں فرماں برداروں میں شامل ہوں۔‘‘
یہ دعا نفل نماز میں التحیات اور درود شریف کے بعد سلام سے پہلے تین مرتبہ پڑھنے کا معمول بنالیںاِنْ شَآءَ اللّٰہُ اولاد کی اصلاح ہوگی۔
5    بچوں کے ساتھ نرمی اور شفقت کا معاملہ کریں کیوں کہ بہت زیادہ ڈانٹ ڈپٹ کرنےسے بچےپر منفی اثرات پڑتے ہیں جس کی وجہ سے تعلیم وتربیت سے محروم ہونے کا اندیشہ ہے۔
6    نیک کام میں بچوں کی معاونت کریں اور بچے کے لیے نیک بننے کے اسباب مہیا کریں۔
7    تمام لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان مساوات اور برابری کا معاملہ کریں ان میں کسی طرح کا فرق نہ کریں۔
8    بچوں کو موقع محل کی دعائیں اور ہر عمل کا سنت طریقہ سکھائیں۔
9    جب بچہ بولنا سیکھے تو سب سے پہلے اللہ کہنا سکھائیں اور اس کو کلمہ طیبہ یاد کرائیں۔
–    ماں باپ اپنے بچوں کو نماز سکھائیں اور جب بچہ سات سال کا ہوجائے تو نماز کا حکم کریں اور جب دس سال کا ہوجائے تو نماز نہ پڑھنے پر ماریں۔ اس طرح بلوغت سے بہت پہلے بچوں کو روزہ رکھنے کا عادی بنائیں اسی طرح زکوٰۃ دینے کی تربیت دیں ۔ اگر وسعت ہو تو حج وعمرہ بھی کرائیں۔
q    والدین کو ترغیب دیںکہ گناہ سے بچنے کی کوشش کریں، اورگناہ کے آلات سے گھر کو پاک کریں ۔ خصوصاً موبائل کے استعمال پر نگرانی رکھیں، بچیوں کے موبائل پر نامحرم لڑکوں کے میسج معاشرے کو کافی نقصان پہنچاتے ہیں۔ آج کل اہل باطل ایسےGame بناتے ہیں جو   بے حیائی اور والدین کی ناقدری سکھاتے ہیں ۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو صحیح استعمال بتاتے رہیں اور غلط استعمال کے نقصان سمجھاتے رہیں۔
w    بچوں سے روزانہ سبق سنیں اور ہر مہینے مکمل سبق سن کر” دستخط سرپرست “کے خانے میں دستخط کریں۔
e    کتاب کے آخر میں نماز کی ڈائری موجود ہے روزانہ اہتمام سے اس کو پُر فرمالیں ۔ تھوڑی سی یہ محنت اِنْ شَآءَ اللّٰہُ  آپ کے بچے کو نمازی بنانےمیں معین ومدد گار ہوگی۔
r    لڑکے ، لڑکیوں کی عمر دس سال ہوجائے تو ان کے بستر الگ کردیں۔
t    بچوں کے سامنے انبیاء علیہم السلام ، صحابہ وصحابیات رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کے واقعات سناکر ایسی تربیت کریں کہ وہ دین میں پختہ ہوجائیں۔
y    سچے واقعات بیان کریں کیوں کہ بچے واقعات سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔
u    والد صاحب ”مثالی باپ “اوروالدہ صاحبہ” مثالی ماں “کامطالعہ کریں۔
(۵ء۱۰)  ایک ضروری گزارش:
اہتمام سے اپنے بچوں کو مکتب میں بھیجیں، وقت کی پابندی ہو اور چھٹی نہ ہو۔
دنیا میںوہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو پابندی کرتے ہیں، وقت پر پہنچتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے بڑے کام لیتے ہیں۔
(۱ء۵ء۱۰)ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وقت کی پابندی:
٭    ایک مرتبہ مکہ والوں نے خانہ کعبہ نئے سرے سے تعمیر کرنے کا ارادہ کیا۔
٭    خانہ کعبہ کی تعمیر کو ہر شخص اپنی سعادت سمجھتا تھا۔ چناںچہ سب نے مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر میں حصہ لیا، سارے کام خوش اسلوبی سے انجام پاگئے، لیکن جب حجر اسود کوخانہ کعبہ میں لگانے کا وقت آیا تو سخت اختلاف پیدا ہوا۔
٭    حجر اسود ایک جنتی پتھر ہے جو خانہ کعبہ کی دیوار میں لگا ہوا ہے۔
٭    اسلام سے پہلے بھی مکہ والے حجر اسود کی تعظیم کیا کرتے تھے، اس لیے ہر قبیلے اور ہر شخص کی خواہش تھی کہ وہ اس مقدس پتھر کو لگانے کی سعادت حاصل کرے۔
٭    یہ اختلاف اتنا بڑھ گیا کہ لڑائی کی نوبت آگئی۔ قریب تھا کہ تلواریں چل جاتیں، لیکن قوم کے کچھ سمجھ دار لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ’’جو شخص کل صبح سب سے پہلے مسجد حرام میں داخل ہو گا وہ اس جھگڑے کا فیصلہ کرے گا۔‘‘
٭    اللہ تعالیٰ کی قدرت کہ اگلے دن سب سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام میں داخل ہوئے۔
٭    آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر سب بول اٹھے ’’صادق آگئے، امین آگئے ہم ان کے فیصلے پر راضی رہیں گے۔‘‘
٭    اس موقعے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عجیب فیصلہ یہ فرمایا کہ آپ صلی اﷲعلیہ وسلم نے  حجر اسود کو ایک چادر پر رکھ دیا اور پھر فرمایا:
٭     ’’ہر قبیلے کا ایک آدمی چادر کا ایک کو نہ پکڑلے۔‘‘
٭    سب نے اس فیصلے کو بہت پسند کیا۔ چناںچہ اسی طرح کیا گیا۔ وہ لوگ اس چادر کو اٹھا کر  اس مقام تک لے آئے جہاں ’’حجر اسود‘‘ لگانا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنےدست مبارک سے ’’حجر اسود‘‘ کو اس جگہ لگا دیا۔
٭     اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حُسنِ تدبیر سے اور صبح جلدی آنے سے آپس کی جنگ کا خطرہ ٹل گیا۔
(۶ء۱۰)   انفرادی ملاقات کے امور:
1     والدین کو بچوںکی مکمل تعلیمی اور اخلاقی کیفیت مثبت انداز میں بتائی جائے ۔
2    بچہ جتنی باتیں مکتب میںپڑھ رہا ہےوالدین کو وہ بتائی جائیں کہ آپ کا بچہ قرآن کریم ،حدیث ومسنون دعائیں،ایمانیات،عبادات، اخلاق وآداب، عربی و اردو پڑھ رہا ہے۔ مَاشَآءَ اللّٰہُ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام میں سے ۷۰ نام بچے کو یاد ہیں، تھوڑی آپ کی محنت اور فکر سے مزید ترقی ہوگی۔
3     اس بات کی ترغیب دیں کہ بچوں سے روزانہ سبق سنیں اور ہرمہینے بچوں سے مکمل سبق سن کر سبق کے ختم پر دستخط سرپرست کے خانے میںدستخط فرمائیں۔
4    مکمل کورس تک مکتب میں بچے کو پابندی سے بھیجنے کی تشکیل کی جائے۔
5     جو طلبا مدارس میں پڑھنا چاہتے ہیں ان کی رہنمائی کی جائے۔
6    بچے کی حفظ کی استعداد معلوم ہوتو بچے کو مکتب میں حافظ بنانے کی تشکیل کی جائے۔
7      والدین کو بالغان کورس میں داخلے کی ترغیب دی جائے۔
8    والد کو مستورات کی تعلیم کے لیے فکر مند کرکےبچیوں اورگھر کی بڑی عورتوںکو بنات کے مکتب میں بھیجنے کی ترغیب دی جائے۔
9     بہت کمزور بچہ(جو فیل ہے)اس کے بارے میںحکمت سے بات کی جائے کہ تھوڑی کمزوری ہے آپ کا بچہ اسی درجہ میں اور پڑھ لے گا تو فائدہ ہوگا۔
0-    یہ بھی بتادیں کہ ہمارا مکتب نفع(مال) کمانے کے لیے نہیں ہے بل کہ یہ مسلمان بچوں کو قرآن کریم کلمے، نماز کی فکر اور اپنی ذمے داریوں کو اداکرنے کے لیے ہے۔