تعلیمی اوقات
’’تعلیمی اوقات صبح ، دوپہر اور شام تک پھیلادیں تاکہ بچے اپنی سہولت کے مطابق مکتب میں آسکیں۔‘‘
(۱ء۸) بچوں اور بچیوں کے لیے تعلیم کے اوقات:
m بچوں کی سہولت کو سامنے رکھ کرداخلے کا وقت اورتعلیم کاوقت صبح دوپہر اور شام میں مقرر کرنا چاہیے ۔
m عموماً بچوں کے پاس اسکول، ٹیوشن، کھیل کود کی مصروفیت کی وجہ سے وقت کی کمی ہے۔
m اگر بچہ ان مصروفیت کے ساتھ کم از کم سوا گھنٹہ بھی مکتب میں دینی تعلیم کے لیے فارغ کر رہا ہے تو یہ ہمارے لیے قیمتی ہے۔
m طلبا کو تعلیمی اوقات میں سہولت دی جائے، تو خودبہ خود طلبا کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔
m جو بچے صبح اسکول جاتے ہیں ان کو ظہر کے بعد سوا گھنٹہ کے لیے بلایا جائے۔
m جو بچے دوپہر میںاسکول جاتے ہیں ان کو صبح کے وقت میں سوا گھنٹے کے لیے بلایا جائے۔
m شہروں میں تعلیمی اوقات صبح ۸ ؍ بجے سے ۱۲؍ بجے تک، ظہر سے عصر تک، عصر تا مغرب اور مغرب تا عشاء سواسوا گھنٹے کی الگ الگ جماعتیں بنائی جائیں ۔
m دیہاتوں میں صبح سوا سوا گھنٹے کی تین جماعتیں ہوں اوردوپہر میں دو جماعتیں ہوں۔
m دیہات /گاؤں میں مقامی ذمے داروں سے مشورہ کرکے سوا گھنٹے سے زائد وقت بھی رکھ سکتے ہیں۔
m دیہات/ گاؤںمیں ضرورت کے مطابق کم اور زیادہ جماعتیں بناسکتے ہیں۔
m جو بچے اسکول نہیں جاتے ان کے لیے زیادہ وقت پڑھانے کی ترتیب بنانی چاہیے۔
(۲ء۸) رمضان المبارک میں تعلیم کے اوقات:
m ماہ رمضان میں وقت میں سہولت کرنی چاہیے۔
m ماہ ِرمضان میںصرف صبح اور ظہر تا عصر مکاتب ہوں توبہتر ہے۔
m ماہ رمضان میں عصر کےبعد اور مغرب کے بعد پڑھنے والے بچوں کو ان کی سہولت کے اعتبار سےصبح یادوپہرمیں بلائیں۔
m اگر جماعتیں زیادہ ہوں مثلاً ۵ یا ۶جماعتیں ہو ںتو دوجماعتوں(Batch)کوایک ساتھ سواگھنٹے میں پڑھالیں۔
(۳ء۸) چھٹیوں کی ترتیب:
m تعلیم اور چھٹی کا نظام اگر اسکول کے ساتھ ہو تو بہتر ہے تاکہ بچوںکی مکمل دن چھٹی رہے ۔
m ہفتہ واری چھٹی اتوار کے دن ہو ا گر یہ ممکن نہ ہو تو جمعے کے دن رکھی جائے۔
9 بنات کے مکاتب قائم فرمائیں
’’بچیوں کے لیے بنات کے مکاتب قائم کریں اور اس کا پورا نظام شریعت کے دائرے میںرہ کر مستورات کے ذریعے چلائیں۔‘‘
(۱ء۹) بنات کے مکاتب کسے کہتے ہیں اور کیسے چلائیں؟
m وہ جگہ جہاں بنات کو معلمات کے ذریعے قرآن کریم کے ساتھ ساتھ دین کی اہم اور ضروری باتیںشریعت کی حدود میں رہ کر سکھائی جائیںاور ان کی دینی تربیت کی جائے۔
m کوئی بھی دینی لگن اور فکر رکھنے والی خاتون مکتب کا نظام چلا سکتی ہے اورمکتب سے باہر کے انتظامی امور میں اپنے محرم سے مدد لے سکتی ہے۔
m بنات کے مکاتب کی نگرانی مستورات ہی کے ذریعے کرائی جائے۔
m بنات کے مکاتب میں پڑھانے والی معلمہ کی تربیتی نشست مستورات ہی کے ذریعے کرائی جائے۔اگر یہ ممکن نہ ہو تو مردوں کے ذریعے تربیتی نشست پورے پردے کے اہتمام کےساتھ کرائی جائے۔
(۲ء۹) بنات کے مکاتب کی اہمیت و ضرورت:
1 عورتوں کی موجودہ دینی صورت حال نہایت قابل توجہ ہے۔اکثریت کو فرض عین کا علم نہیں ہے۔
2 عورتوں کا علم دین سیکھنا بہت ضروری ہے۔کیوںکہ دین دار عورتیں دین کو پھیلانے میں مدد گار ہوتی ہیںاور خصوصاََ وہ اپنے بچوں کو بھی اہتمام کے ساتھ مکتب میں بھیجتی ہیں۔ (۱ء۲ء۹) تعلیم کی اہمیت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’رَجُلٌ کَانَتْ عِنْدَہٗ أَمَۃٌ فَاَدَّبَھَا فَاَحْسَنَ تَاْدِیْبَھَا وَعَلَّمَہَا فَاَحْسَنَ تَعْلِیْمَہَا ثُمَّ اَعْتَقَہَا فَتَزَوَّجَہَا فَلَہٗ اَجْرَانِ۔‘‘
(صحیح البخاری، العلم، باب تعلیم الرجل امتہ واھلہ، الرقم: ۹۷)
ترجمہ: ’’وہ شخص جس کے پاس کوئی باندی ہو، اسے اس نے ادب سکھایا اور خوب اچھی طرح سکھایا، اسے تعلیم دی اور اچھی تعلیم دی پھر اسے آزاد کیا اور پھر اس کے ساتھ نکاح کرلیا اس کے لیے دو اجر ہیں۔‘‘
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’صحیح بخاری‘‘ میں اس حدیث پر یہ باب باندھا ہے:
’’بَابُ تَعْلِیْمِ الرَّجُلِ اَمَتَہٗ وَاَھْلَہٗ۔‘‘
ترجمہ: ’’مرد کا اپنی باندی اوراپنے گھر والوں کو دین کی تعلیم دینے کا بیان۔‘‘
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’مُطَابَقَۃُ الْحَدِیْثِ لِلتَّرْجَمَۃِ فِی الْاَمَۃِ بِالنَّصِّ وَفِی الْاَھْلِ بِالْقِیَاسِ، اِذِ الْاِعْتِنَاءُ بِالْاَھْلِ الْحَرَائِرِ فِیْ تَعْلِیْمِ فَرَائِضِ اللّٰہِ وَسُنَنِ رَسُوْلِہٖ اٰکَدُ مِنَ الْاِعْتِنَاءِ بِالْاٰمَاءِ۔ ‘‘ (فتح الباری:۱/۲۵۰)
ترجمہ: ’’حدیث کی باب سے مناسبت باندی سے متعلق واضح طور پر ثابت ہے اور گھروالوں سے متعلق قیاساً ثابت ہے، اس لیے کہ گھروالوں کو اللہ تعالیٰ کے احکامات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنتیں سکھانے کی زیادہ اہمیت و تاکید ہے بنسبت باندیوں کے کیوں کہ گھر والے تو آزاد ہیں۔ ‘‘
(۳ء۹) بنات کے مکاتب کے فوائد:
1 عورتوں کو دیگر گھریلو ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ علم دین سکھانے کا مکتب بہت آسان ذریعہ ہے۔
2 بچے کا پہلامکتب ماں کی گود ہے اگر ماں دین دار ہوگی تو بچے کی تربیت پر اس کا اثر پڑے گا۔
3 مرد پڑھا فرد پڑھا، خاتون پڑھی خاندان پڑھا، عورت میںدین، خاندان میں دین آنے کا سبب ہے۔
(۴ء۹) بنات کے مکاتب کی جگہیں:
m بچوں کے وہ مکاتب جو دوپہر کے اوقات میں بند رہتے ہیں ۱۱؍سے ۲؍تک اس وقت میں بھی بنات کا مکتب چلاسکتے ہیں۔
m کرائے پر الگ کمرہ یا ذاتی مکان میں جس وقت میں مرد حضرات نہ ہوتے ہوں،پردے کا مکمل انتظام ہو، اس میں بنات کا مکتب شروع کرسکتے ہیں۔
(۵ء۹) معلمہ کی صفات:
1 عالمہ ، حافظہ جو قرآن کریم صحیح تجوید کے ساتھ پڑھ سکتی ہو۔
2 پڑھانے کاتجربہ ہو۔
3 دین دارہو۔
4 عالمہ یا حافظہ نہ ہوتو جس خاتون کا قرآن کریم صحیح ہووہ پڑھاسکتی ہیں۔
5 اردو یا مقامی زبان پڑھنا لکھنا جانتی ہو۔
(۶ء۹) بنات کے مکتب کے تعلیمی اوقات:
m بنات کی تعلیم کے لیے صبح اور دوپہر کے اوقات میں ترتیب بنائی جائے۔ بڑی عمر کی مستورات کے لیے دوپہر کے اوقات میں ترتیب بنائی جائے اس لیے کہ ان اوقات میں عموماً وہ گھریلوذمے داریوں سے فارغ ہوتی ہیں۔