امتحانات

w    امتحانات
’’پنج ماہی اور سالانہ امتحان کا نظام بنائیں اور نتیجۂ امتحان بچوں کے والدین کو بلا کر تقسیم کریں۔‘‘
(۱ء۱۲)    امتحان کے مقاصد:
مندرجہ ذیل مقاصد کے حصول کے لیے امتحان لیا جاتا ہے اگر امتحان سے یہ مقاصد حاصل کیے جائیں تو امتحان کامیاب امتحان کہلائے گا اور ان شاء اللہ اس طرح با مقصد امتحان سے تعلیمی معیار میں بھی ترقی آئے گی اور ادارے کا معیار بہتر اور بلند ہوگا۔
1    امتحان سےطلبا کی محنت سامنے آجاتی ہے۔
2    طلبا، اساتذہ والدین اور انتظامیہ مزید فکر مند ہو جاتی ہے۔
3    امتحان کے ذریعے مکتب میں تعلیمی ماحول بنتا ہے۔
4    بچے کو پڑھا ہو اکتنا یاد ہے یہ سامنے آجاتا ہے ۔
5    امتحان سےپہلے گزشتہ اسباق کی اچھی طرح دہرائی ہو جاتی ہے۔
6    امتحان کے ذریعے مقابلے کی فضا بن جاتی ہے جس سے بچے میں آگے بڑھنے کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔
7    محنت کرنے والے طلبا کی حوصلہ افزائی ہو جاتی ہے جس سے ان میں مزید محنت کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔
8    محنت نہ کرنے والےطلبا کے لیے امتحان ایک خاموش تنبیہ ہے جس کی برکت سے وہ بھی محنت کرنے کاپکا ارادہ کرلیتے ہیں۔
9    استاذ کی محنت کی نوعیت معلوم ہو جاتی ہے ۔
–     بچوں کی کمزوری کی نوعیت سامنے آجاتی ہے جسے دور کرنے میں آسانی ہوتی ہے ۔کیوں کہ کمزوری معلوم کیے بغیر دور نہیں کی جا سکتی۔
(۲ء۱۲)   امتحانات کی ترتیب:
1    سال میں بچوں کے دوامتحان ہوں پہلا پنج ما ہی اور دوسرا سالانہ۔
2    مکتب میں پنج ماہی اور سالانہ امتحان کے لیے سینٹر سے رابطہ کرکے امتحان کی ترتیب بنائیں۔
3    امتحان کے وقت بچوں کو امتحان کی پیشگی اطلاع کے ساتھ انعامات کا بھی اعلان کردیں تاکہ بچوں میں شوق پیدا ہواور اس کی تیاری کرسکیں۔
4    مکتب کے امتحان اسکول کے امتحان کے ساتھ نہ ہوں، پہلے یا بعد میں ہوںتاکہ بچے پر تعلیم کا زیادہ بوجھ نہ پڑے۔
5    مکاتب میں مقامی معاون کے جائزے کو امتحان نہ سمجھا جائے۔
(۳ء۱۲)   گزار شا ت برائے اساتذہ کرام :
(۱ء۳ء۱۲)   امتحان سے پہلے کرنے کے کام:
1    ممکن ہو تو امتحان سے پہلے اساتذہ کرام /معلمات، بچے /بچیاں دو رکعت نماز پڑھ کر نماز حاجت کی دعا مانگ لیںتاکہ بچوں کی شروع سے عادت بن جائے کہ جب بھی کوئی حاجت پیش آئے تو نماز کی طرف متوجہ ہوجائیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں۔
نماز حاجت کی دعا:
’’لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ، سُبْحَانَ اللّٰہِ رَبِّ الْعَرْشِ  الْعَظِیْمِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، اَسْئَلُكَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِكَ وَعَزَآئِمَ مَغْفِرَتِكَ، وَالْغَنِیْمَۃَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ، وَالسَّلَامَۃَ مِنْ کُلِّ اِثْمٍ، لَاتَدَ عْ لِیْ ذَنْبًا اِلَّا غَفَرْتَہٗ وَ لَا ھَمًّا اِلَّا فَرَّجْتَہٗ، وَلَا حَاجَۃً ھِیَ لَكَ رِضًا اِلَّا قَضَیْتَہَا یَاۤ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔‘‘     (الترمذی، الوتر، باب ماجاء فی صلاۃ الحاجۃ، الرقم: ۴۷۹)
ترجمہ: ’’اللہ کےسوا کوئی معبود نہیں ، وہ بڑے حلم والا اور بڑاکریم ہے۔ پاک ہے وہ اللہ جو عرش عظیم کا بھی رب اور مالک ہے، ساری حمد وستائش اس اللہ کے لیے جو سارے جہانوں کا رب ہے ۔ “”””””
اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ان اعمال اور ان اخلاق واحوال کا جو تیری رحمت کا موجب اور وسیلہ اور تیری مغفرت اور بخشش کا پکا ذریعہ بنیںاور تجھ سے طالب ہوں ہر نیکی سے فائدہ اٹھانے اور حصہ لینے کا اور ہر گناہ اور معصیت سے سلامتی اور حفاظت کا۔
اے اللہ! میرے سارے ہی گناہ بخش دے اور میری ہر فکر اور پریشانی دور کردے اور میری ہر حاجت جس سے تو راضی ہو اس کو پورا فرمادے۔ اے سب مہربانوں سے بڑے مہربان۔‘‘
2    تمام طلبا کے والدین خاص طور پر کمزور طلبا کے والدین کو انفرادی بلاکر بتایا جائے کہ ایک ماہ بعد امتحان ہونے والے ہیں، آپ گھر پر بھی محنت فرمالیں تاکہ بچہ امتحان میں کامیاب ہو۔
3    فیل ہونے کے بعد والدین کو بلانا کہ آپ کا بچہ فیل ہوا ہے تو یہ کمزوری کی اطلاع ہے ، ایسی اطلاع دینی ہی نہ پڑےاس کے لیے والد حضرات کو امتحان سے پہلے فکر مند کرلینا چاہیے تاکہ طلبا امتحان میں فیل ہونے سے بچ جائیں۔
(۲ء۳ء۱۲)امتحانی فارم پر کرنے کی ترتیب:
m     امتحان سے قبل امتحانی فارم پر استاذ محترم اپنا نام، مکتب کا نام، طلبا کے نام، مقدار خواندگی اور طلبا کی نماز ڈائری کے نمبر از خود پُر کرنے کی ترتیب بنالیں۔
m    نماز کی ڈائری کے نمبرات کی ترتیب:
1    طلبا نے اگر زیادہ دن جماعت سے نماز پڑھی ہے تو دس(۱۰) نمبر دیں۔
2    اگر زیادہ دن بغیر جماعت کے نماز پڑھی ہے تو سات (۷)نمبر دیں۔
3    اگر زیادہ دن قضا کی ہے تو چار (۴) نمبر دیں۔
4    طالبات نے اگر زیادہ دن وقت پر نماز پڑھی ہو تو دس(۱۰) نمبر دیں اور اگر زیادہ دن قضا کی ہو تو چار (۴) نمبر دیں۔
5    اگر زیادہ دن نماز نہ پڑھی ہو تو صفر (۰) دیا جائے۔ اسی طرح نماز کی ڈائری پر نہ ہو تو صفر (۰)دیا جائے۔
m    نتیجہ امتحان میں قاعدہ /قرآن کریم اور مضامین کے کل نمبرات کا خانہ الگ الگ ہے، اس کو اچھی طرح تسلی سے گن کر خود پُر کریں۔
m    امتحان کے بعد نتیجہ امتحان کی اصل کاپی مکتب میں رکھیں اور ایک عدد فوٹو کاپی مقامی معاون کو دیدیں۔
m    امتحان کے بعد امتحانی فارم کی مدد سے ہر طالب علم کی رپورٹ کارڈ بنائیں۔
m    برائے کرم رپورٹ کارڈ پر نمبرات درج کرتے وقت درجہ بندی کو ضرور ملحوظ رکھیں۔

(۳ء۳ء۱۲)درجہ بندی کی ترتیب :

حصہ ابتدائیہ کے نمبرات
۸۰ فی صد
سے
۱۰۰ فی صد
۱۵۲
سے
۱۹۰
ممتاز
۶۶ فی صد
سے
۷۹  فی صد
۱۲۵
سے
۱۵۱
جید جدا
۵۱ فی صد
سے
۶۵ فی صد
۹۶
سے
۱۲۴
جید
۴۰ فی صد
سے
۵۰فی صد
۷۶
سے
۹۵
مقبول
۴۰ فی صد
سے
کم
۷۶
سے
کم
راسب (فیل)

حصہ اوّل کے نمبرات ۸۰ فی صد
سے
۱۰۰ فی صد
۱۶۰
سے
۲۰۰
ممتاز
۶۶ فی صد
سے
۷۹  فی صد
۱۳۲
سے
۱۵۹
جید جدا
۵۱ فی صد
سے
۶۵ فی صد
۱۰۲
سے
۱۳۱
جید
۴۰ فی صد
سے
۵۰فی صد
۸۰
سے
۱۰۱
مقبول
۴۰ فی صد
سے
کم
۸۰
سے
کم
راسب (فیل)
نوٹ:       1   امتحانات کے روز طلبا کی حاضری یقینی بنانے کی کوشش کریں۔ طالب علم غیر حاضر ہو تو استاذ محترم خود یا مقامی معاون امتحان لیں البتہ اس طالب علم کو پوزیشن اور انعامی نمبر نہ دیے جائیں۔
2      امتحانات کے نتائج مسجد یا مکتب میں آویزاں کرنے کی کوشش کریں۔
(۴ء۱۲)   گزارشات برائے ممتحنین:
1    تمام ممتحنین کرام سے گزارش ہے کہ امتحان لینے سے قبل ہوسکے تو دو رکعت نفل نماز پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ لیں۔
2    ممتحن طلبا کی تعداد اور وقت معلوم کرلیں تاکہ ہر طالب علم کو مناسب وقت ملے اور امتحان بھی وقت پر ختم ہو۔
3    ہر ممتحن بچے پر اپنا اچھا اثر ڈالے، طبیعت میں اتنی سختی نہ ہو کہ بچہ یاد شدہ بھی بھول جائے ۔
4    سوال سمجھانے کی غرض سے اتنا پڑھ کر سنایا جاۓ کہ بچوں کو سوال سمجھنے میں آسانی ہو۔
5    بچہ جتنے نمبر کا مستحق ہے اس سے زیادہ نمبر نہ دیے جائیں اور نہ ہی اس سے کم نمبر دیے جائیں بل کہ پوری جماعت میں میانہ روی اختیار کی جائے۔
6    حتی الامکان کمزور طلبا کو فیل نہ کریں البتہ کیفیت کے خانے میں لکھ دیں ’’رعایتی نمبر‘‘ ۔
7    پختگی اورادائیگی کے الگ الگ نمبرات ہیں لہٰذا ان کومد نظر رکھتے ہوۓ امتحان لیا جائے۔
8    تربیتی نصاب کے مضامین میں سے ہر مضمون کے نمبر الگ ہیں، لہٰذا ہر مضمون کے نمبر متعلقہ خانے میں درج کیے جائیں۔
ممتحن طالب علم کا امتحان لینے کے بعد فوراً نمبرات لکھ لیں۔ تمام طلبا کو آخر میں ایک ساتھ نمبرات نہ دیں۔
9    نمبرات انگریزی ہندسوں میں لکھیں۔ نمبرات اندراج کرتے وقت طالب علم کا نام ضرور معلوم کرلیں تاکہ نمبرات دینے میں غلطی نہ ہو۔
–    ہر طالب علم کی تعلیمی کیفیت مختصراً لکھیں ۔ کیفیت اور نمبرات میں تضاد نہ ہو۔
جو طالب علم کچھ بھی نہ بتاسکے اس کی کیفیت کے خانے میں وضاحت کردی جائے تاکہ اگلے درجہ میں ترقی روک دی جائے۔
q    پوری کلاس کی مجموعی کیفیت آخر میں(کیفیت) کے خانے میں ضرور لکھی جائے۔ واضح رہے کہ مجموعی اور انفرادی کیفیت میں تضاد نہ ہو۔
w    تعلیم وتربیت میں مزید بہتری کے لیے آں جناب کی مفید آراء ہو تو ہمیں ضرور آگاہ فرمائیں۔
امید ہے آں جناب مذکورہ بالا گزارشات کا ضرور خیال فرمائیں گے۔
(۵ء۱۲)   ضابطہ امتحان برائے نورانی قاعدہ :
(۱ء۵ء۱۲)     پختگی :
پختگی کے ۷۰نمبر ہیں۔ہر طالب علم سے قاعدہ میں سے کم از کم تین جگہوں سے پوچھیں اور دو تین سطریں سنیں۔
پختگی میں ان دو باتوں کا خیال رکھیں:
1    مفردات ومرکبات کی بچے کو پہچان ہو، یعنی حروف کی شکلوں کی پہچان کرسکتا ہو۔
2    ہجے اور رواں دونوں طریقوں سے اچھی طرح پڑھ سکتا ہو۔ اگر طالب علم حروف کی پہچان یا رواں میں غلطی کرے توچار نمبر کاٹیں۔ ہجے میں غلطی کرے تو تین نمبر کاٹیں اور اٹکن کی صورت میں ایک نمبر کاٹیں۔
3    اگر بچہ رواں پڑھنا بالکل نہ جانتا ہوتو ۳۵نمبر کاٹیں۔
(۲ء۵ء۱۲)  تجوید:
تجوید کے ۳۰نمبر ہیں۔تجوید سے متعلق مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھیں:
1    حروف کی ادائیگی صحیح ہو۔
2    تنوین، جزم اور تشدیدقلقلہ، غنہ وغیرہ جتنا قاعدہ کا سبق ہوا ہےاس کو صحیح طریقے سے پڑھ سکتا ہو۔  اگر طالب علم اس میں غلطی کرے تو ایک نمبر (۱) کاٹیں۔
وضاحت:
1    طالب علم کسی ایک حرف کو مخرج سے ادا کرنے میں کئی بار غلطی کرے مثلاً “ض”کئی مرتبہ غلط پڑھے تو صرف دو نمبر کاٹیں، البتہ “ض” اور “ظ” غلط پڑھے یا اس کے علاوہ کوئی اور حرف غلط پڑھے تو پھر مزید دو نمبر کاٹیں۔ اسی طرح غنہ وغیرہ میں کئی مرتبہ غلطی کرے تو صرف ایک نمبرکاٹیں ، البتہ غنہ کے ساتھ تشدید یا اس کے علاوہ کسی اور تجوید کے قاعدہ میں غلطی کرے تو پھر دوسرا نمبر بھی اسی ترتیب پر کاٹیں۔ خلاصہ یہ کہ ایک ہی قسم کی غلطی کئی بار ہو تو ایک مرتبہ نمبر کاٹیں اور غلطی دوسری نوعیت کی ہو تو پھر مزیدنمبر کاٹیں۔
2    جن طلبا کا نصاب حصہ اوّل میں آٹھ ماہ یا اس سے زیادہ ہو تو حفظ سورۃ کا امتحان بھی لیا جائے۔
(۶ء۱۲)    ضابطہ امتحان برائے ناظرہ: (قرآن کریم / حفظ سورۃ)
(۱ء۶ء۱۲)      پختگی:
پختگی کے ستر (۷۰) نمبر ہیں۔
1    ہر طالب علم سے ناظرہ قرآن کریم میں سے کم از کم دو مقامات سے پوچھیں اور حفظ سورہ میں سے کم از کم ایک سورت سنیں۔
2    ہر مقام میں سے دس سطریں سنی جائیں۔
3    ایک غلطی پر چار نمبر کاٹے جائیں اور اٹکن پر ایک نمبر کاٹا جائے۔
(۲ء۶ء۱۲)   تجوید:
تجوید کے تیس (۳۰) نمبر ہیں۔ تجوید سے متعلق مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھیں:
1    حروف کی ادائیگی صحیح ہو۔
m    اگر طالب علم کسی حرف کو اس کے صحیح مخرج سے ادا نہ کرے تو دو نمبر کاٹے جائیں۔
2    لفظ اللہ، را، مدّات، قلقلہ، تشدید، غنہ، اظہار، اقلاب، ادغام اور وقف درست ہو۔
m    اگر طالب علم ان میں سے کسی میں غلطی کرے تو ایک نمبر کاٹیں۔
وضاحت:  طالب علم ایک ہی قسم کی غلطی کئی مرتبہ کرےتو ایک مرتبہ ہی نمبر کاٹیں، ہر بار نہ کاٹیں۔ البتہ غلطی کی نوعیت دوسری ہو تو مزید نمبر بھی کاٹیں۔ مثلاً: طالب علم”ض “ بھی غلط پڑھے اور ”ع “ بھی تو دونوں کے نمبر کاٹے جائیں البتہ”ض “ کئی مرتبہ غلط پڑھے تو ایک ہی مرتبہ نمبر کاٹیں ۔ اسی طرح طالب علم قلقلہ اورتشدید بھی صحیح نہ کرے تو دونوں کے نمبر کاٹیں۔
وضاحت:    امتحان لیتے وقت طلبا کو اپنے ذہن میں کل نمبر دے دیے جائیں، پھر اگر طالب علم غلطی کرے تو نمبر کاٹے جائیں۔ مثلاً: پختگی کے ستر (۷۰) نمبر ہیں، اگر طالب علم ایک غلطی کرے تو (۷۰) میں سے چار نمبر کاٹیں مزید غلطی کرے تو فی غلطی چار نمبر کاٹتے جائیں۔
(۷ء۱۲) ضابطہ امتحان برائے حفظ :
1    ایک سے سات پاروں تک دو سوال کیے جائیں۔ ہر سوال ۱۵ سطروں تک سنا جائے۔
2    ایک سے ۱۵ پاروں تک تین سوال کیے جائیں۔ ہر سوال ۱۲ سطروں تک سنا جائے۔
3    ۱۵ سے زائد پاروں پر ۴ سوال کیے جائیں ۔ ہر سوال ۱۰ سطروں تک سنا جائے۔
4    ایک غلطی پر ۴ نمبر کاٹے جائیں۔
5    اٹکن پر ایک نمبر کاٹا جائے۔
(۸ء۱۲)   ضابطہ امتحان برائےمضامین تربیتی نصاب:
1    تربیتی نصاب کے چھ مضامین میں سے ہر مضمون سے سنا جائے۔
ہر مضمون سے متعلق دو سوال طالب علم سے کریں۔
2    طالب علم دونوں سوالوں کا درست جواب دے تو پندرہ نمبر دیں۔ ایک سوال کا غلط جواب دے تو پانچ نمبر کاٹیں اور کچھ جواب درست اور کچھ غلط ہو تو دو نمبر کاٹیں۔
3    دونوں سوال کا غلط جواب دے تو مزید آسان آسان سوال کرکے کم از کم پانچ نمبر دیں۔ اگر طالب علم آسان سوالوں کا جواب بھی نہ دے سکے تو پھر صفر دیا جائے۔
وضاحت:   تربیتی نصاب میں یہ دو علامات ’’ ٭  ،  &  ‘‘ استعمال کی گئی ہیں :
1    ’’ ٭‘‘     یہ علامت جہاں ہو اس کا مطلب طالب علم سے معلوم کریں۔
2    ’’  &  ‘‘یہ علامت جہاں ہو اس کے بارے میں زبانی سوال طالب علم سے کریں۔
(۹ء۱۲)   نتیجہ  امتحان:
1    نتیجہ امتحان (رپورٹ کارڈ) بہترین ہوناچاہیے،اس کے ذریعے بچوں اوران کے والدین میں اہمیت اور فکر پیدا ہوتی ہے۔
2    نتیجہ امتحان (رپورٹ کارڈ) میں مکتب کانام اور مکمل پتا ہو۔
3     طالب علم کا نام ہو۔
4     تعلیمی سال کا بھی خانہ (کالم) ہو۔
5     بچوں کی سالانہ حاضری/غیر حاضری کا ریکارڈ بھی ہو۔
6    پنج ماہی و سالانہ امتحانات کے الگ الگ نمبرات ہوں۔
7    تمام مضامین کے الگ الگ نمبرات ہوں۔
8    پنج ماہی اور سالانہ امتحان کی کیفیت کا الگ الگ خانہ (کالم) ہو۔
9    امتحان کی تاریخ لکھی جائے۔ درجہ کامیابی لکھا جائے۔ (ممتاز، جید جداً، وغیرہ)
–    دستخط معلم، مقامی معاون اور دستخط سرپرست کا خانہ ہو۔
q    نتیجہ امتحان بچوں کے والدین کو بلاکر دیں۔
w    نتیجہ امتحان دیتے وقت سرپرستوں کو فیس اور یونی فارم کے متعلق ضرور یاددہانی کرائی جائے۔
نوٹ:    نتیجہ امتحان(رپورٹ کارڈ) ادارئہ مکتب تعلیم القرآن الکریم سے آپ منگواسکتے ہیں۔
(۱۰ء۱۲)   امتحانی نتائج:
واضح رہے کہ امتحان کے بعد آنے والا نتیجہ ہی آئندہ کے لائحہ عمل کے لیے بنیاد کا کام دیتا ہے۔ نتائج سامنے آنے کے بعد صحیح رخ پر محنت کی ابتداء ہوتی ہے ،کیوںکہ نتیجے کی حیثیت ایسی ہے جیسے ایکسرے رپورٹ کی حیثیت ہے یعنی جب کوئی مریض اپنے مرض کا چیک اپ کرواتا ہے تو اسے رپورٹ ملتی ہے اصل وہ رپورٹ ہو تی ہے اور اس رپورٹ کی بنیاد پر علاج شروع ہو تا ہے اب اگر کوئی شخص ایکسرے رپورٹ لے کر خوشی خوشی گھر جائے اور اسے الماری میں سنبھال کر رکھے اور بس ۔آگے اس کی بنیاد پر علاج نہ کروائے تو ایسا کرنے سے اس مریض کا علاج یقینا نہیں ہوگا ،اور مرض باقی رہے گا بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ بھی ہو تا رہے گا۔
امتحانی نتائج کی مثال بھی اسی طرح کی ہے کہ اگر نتیجہ مرتب ہونے کے بعدصرف فائل میں لگادیا گیا تو ایسا کرنے سے امتحان کا فائدہ حاصل نہ ہو گا۔امتحانی نتائج کا فائدہ اس وقت حاصل ہو گا جب اس کی روشنی میں ہر بچے کی نوعیت کو مد نظر رکھ کر محنت کی جائے ۔ ایسا کرنے سے ان شاء اللہ تعلیمی معیار میں بہت جلد نمایاںبہتری آئےگی جس سے اِنْ شَآءَ اللّٰہُ   ادارے کا معیار بھی بلند ہوگا۔